علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

پیر، 8 ستمبر، 2025

#سعادتمند



#سعادتمند


🌹🌹 حضرت امام علی علیہ السلام:


🟤 طُوبَى لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِهِ، وَ طَابَ كَسْبُهُ، وَ صَلَحَتْ سَرِيرَتُهُ، وَ حَسُنَتْ خَلِيقَتُهُ، وَ أَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِهِ، وَ أَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِهِ، وَ عَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّهُ، وَ وَسِعَتْهُ السُّنَّةُ، وَ لَمْ يُنْسَبْ إلَى الْبِدْعَةِ.


🔵 خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے اندر تواضع اور انکساری پیدا کرے، اور اپنی کمائی کو پاکیزہ بنائے، اس کا باطن صاف اور صالح ہو، اور اس کا اخلاق نیک ہو، جو اپنے مال کے زیادہ حصّے کو خدا کی راہ میں خرچ کرے؛ اور فضول باتوں سے اپنی زبان کو قابو میں رکھے، اور جو اپنے شر کو لوگوں سے دور رکھے، جس کے لیے سنت کافی ہو، اور بدعت سے کوئی نسبت نہ رکھے۔


📚 نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص۴۹۰، ح۱۲۳۔


▫️▫️▫️▫️▫️


✍🏼 سعاتمند لوگوں کی آٹھ صفات:


۱۔ تواضع (طُوبَى لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِهِ)


امام علیہ السلام نے سب سے پہلی صفت میں تواضع کا ذکر کیا ہے، اس کے مقابل تکبر ہے جو تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ پہلا گناہ جو زمین پر ہوا، وہ شیطان کا تکبر تھا، جس سے وہ خود بھی بدبخت ہوا اور دوسروں کو بھی تباہ کیا۔

ماہ رمضان کی ایک دعا میں اسی مضمون کی ایک درخواست ذکر ہوئی ہے: ۔۔۔وَ فِی نَفْسی فَذَلِّلْنی وَفی أعْیُنِ النّاسِ فَعَظِّمْنی خدایا! مجھے اپنی نظر میں متواضع بنا، اور لوگوں کی نگاہ میں باعزت قرار دے۔ [اقبال الاعمال، ج۱، ص۳۰۶]


۲۔ حلال روزی (وَطَابَ كَسْبُهُ)


کسبِ حلال عبادت کی قبولیت اور دعا کی استجابت اور کامیابی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

جیسا کہ امام صادق ع فرماتے ہیں: مَنْ سَرَّہُ أنْ یُسْتَجابَ دَعْوَتُهُ فَلْیَطِبْ مَکْسَبَهُ "جو چاہتا ہے کہ اس کی دعائیں قبول ہوں، تو وہ اپنی کمائی کو پاکیزہ بنائے"۔ [كافى، ج۲، ص۴۸۶، ح۹]

غزوۂ تبوک سے واپسی پر جب آنحضرت ص نے سعد بن معاذ سے مصافحہ کیا۔ پوچھا، کس چیز نے تمہارے ہاتھوں کو اس قدر سخت بنا دیا ہے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! میں پھاوڑے، بیلچے کے ذریعہ کام کرتا ہوں تاکہ اپنے اہل و عیال کے لئے رزق فراہم کرسکوں۔ تو آنحضرت ص نے ان کے ہاتھ چومتے ہوئے فرمایا: هذِہِ یَدٌ لا تَمُسُّهُ النّارُ "یہ وہ ہاتھ ہے جسے جہنم کی آگ ہرگز نہیں چھوئے گی"۔ [اسد الغابة، ج۲، ص۲۶۹]


۳۔ باطنی پاکیزگی (وَصَلَحَتْ سَرِيرَتُهُ)


باطن کی پاکیزگی کا مطلب خلوص نیت، خیر خواہی، اور فطرت کی پاکیزگی ہے۔ چونکہ انسان کے اعمال اس کی باطنی کیفیت کے ترجمان ہوتے ہیں، اگر کسی کا باطن پاک ہو تو اس کے اعمال، کردار اور اقوال بھی درست ہونگے۔


۴۔ خوش اخلاقی (وَحَسُنَتْ خَلِيقَتُهُ)


"خلیقہ" سے مراد یا تو باطنی خلق و خو ہے، یا حسن سلوک اور خوش اخلاقی۔ اور چونکہ باطنی پاکیزگی کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، لہٰذا یہاں پر مراد ظاہری خوش اخلاقی ہے۔

خوش اخلاقی کا اسلام میں وہ مقام ہے کہ نبی اکرم ص فرماتے ہیں: حُسْنُ الْخُلْقِ نِصْفُ الدّینِ "خوش اخلاقی دین کا آدھا حصہ ہے"۔ [الخصال، ج۱، ص۳۰]    


۵۔ انفاق (وَأَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِهِ)


انفاق اور ضروتمندوں کی مدد پر قرآن و حدیث میں کافی تاکید ملتی ہے، قرآن نے انفاق کو ایک ایسے بیج سے تشبیہ دی ہے جو سات سو گنا تک بڑھ سکتا ہے: مَّثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِى سَبِیلِ اللهِ کَمَثَلِ حَبَّة أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى کُلِّ سُنْبُلَة مِّائَةُ حَبَّة "جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اُگ آئیں، جن میں سے ہر بالی میں سو سو دانے ہوں"۔ [البقرہ/۲۶۱]

ایک موقع پر جب آنحضرت ص نے ضرورتمندوں کے لئے گوسفند کی قربانی اور انفاق کا حکم دیا؛ سوال کیا: کیا باقی رہ گیا ہے؟ جناب عائشہ نے کہا: صرف شانہ۔ آنحضرت ص نے فرمایا: بلکہ سب باقی رہ گیا، سوائے شانے کے"۔  [کنز العمال، ح۱۶۱۵۰]

قرآن بھی فرماتا ہے: مَا عِنْدَکُمْ یَنفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاق "جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے"۔ [الانعام/۹۶]


۶۔ زبان پر قابو (وَأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِهِ)


فضول گوئی ان بے کار باتوں کو کہا جاتا ہے جو زبان سے جاری ہوتی ہیں اور اکثر غیبت، جھوٹ، بہتان اور فتنہ انگیزی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسی بنا پر، آنحضرت ص فرماتے ہیں: لایَسْلَمُ أحَدٌ مِنَ الذُّنُوبِ حَتّى یَخْزُنَ لِسانَهُ "کوئی شخص گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا، جب تک وہ اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھے"۔ [تحف العقول، ص۲۹۸]


۷۔ کسی کو تکلیف نہ دینا (وَعَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّہُ)


احادیث میں مکرّر ذکر ہوا ہے کہ: "مؤمن وہ ہے جس کے شر سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں" [بحارالانوار، ج۱۴، ص ۳۲۰، ح ۲۳ ، ج۶۴، ص۶۰، ح۳]


۸۔ سنت پر قناعت، بدعت سے اجتناب (وَوَسِعَتْهُ السُّنَّةُ، وَلَمْ يُنْسَبْ إِلَى الْبِدْعَةِ)


جو شخص سنت پیغمبر و ائمہ معصومین ع کو اپنی دین و دنیا کے لئے کافی سمجھے، وہ بدعت کی طرف نہیں جاتا۔ بدعتیں تو ان کے لئے ہوتی ہیں جو سنت کو کافی نہ جانیں اور اپنی خواہشات کو بدعت میں پائیں۔


📚 پيام امام امير المومنين(ع)، آیۃ اللہ مکارم شیرازی، ج۱۳، ص۲۵ سے مأخوذ



https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor