۱۰/ ربیع الاول
#حضرت_نبی_اکرم_ص_کا_حضرت_خدیجہ_س_سے_عقد
حضرت رسول اکرم صلّی اللَّہ علیہ و آلہ نے بعثت سے ۱۵ برس قبل حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ عقد کیا۔
[مسار الشیعہ، ص۲۹؛ بحار الانوار، ج۹۵، ص۳۵۷؛ فیض العلام، ص۲۱۱؛ قلائد النحور، ج ربیع الاول، ص۶۷؛ منتخب التواریخ، ص۲۰۔۔۔]
شیعہ احادیث اور عامہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ بنت خویلد بن اسد، اس زمانے کی کتب کی عالمہ کے عنوان سے معروف تھیں۔ آپ قریش کی خواتین میں، تجارت، دولت اور جائداد کی کثرت کے ساتھ ساتھ فراست و ذہانت میں بھی اعلیٰ مقام رکھتی تھیں، اور آپ کو طاہرہ، مبارکہ، سیدہ صنف نسواں اور ملکہ بطحاء کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ آپ ان لوگوں میں سے تھیں جو پیغمبر اکرم ص کی آمد کے انتظار میں تھیں اور ہمیشہ علماء سے آنحضرت ص کے علائم نبوت کے سلسلہ میں استفسار کیا کرتی تھیں۔
جس وقت آپ پیغمبر اکرم ص کی خدمت میں پہونچیں تو سب سے پہلے مہر نبوّت کے سلسلہ میں سوال کیا اور زیارت کی۔ اور نبی اکرم ص کی شان میں آپ کے فصیح و بلیغ اشعار اور خاندان عبد المطلب سے والہانہ لگاؤ آپ کے علم و ادب اور محبت کو بیان کررہے ہیں۔ جس دن آنحضرت ص مبعوث برسالت ہوئے، تو حضرت خدیجہ ع نے اسی دن ایمان کا اظہار فرمایا۔
حضرت خدیجہ س اپنی دولت نیز جو مال آپ کو میراث میں ملا تھا اس سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کیا کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ میں ہی آپ کا شمار بڑے تاجروں میں ہونے لگا، اس طریقہ سے کہ آپ کی تجارت کا سامان اسی ہزار اونٹوں پر حمل کیا جاتا تھا اور دن بدن آپ کی دولت میں اضافہ ہورہا تھا۔ آپ کے دولتکدہ کی چھت پر ریشمی رسیوں کے ساتھ حریر سبز کا قبہ تعمیر تھا جو آپ کی جلالت کی علامت تھا۔
عقبہ بن ابی معیط اور ابن ابی شھاب جیسے لوگوں نے جن میں سے ہر ایک چار سو غلام، کنیز اور خادم رکھتا تھا، اور ابو جہل و ابوسفیان نیز عرب کے دوسرے سرداروں نے آپ سے رشتہ چاہا لیکن آپ نے سب کو ٹھکرادیا، اور کسی سے شادی نہ کی۔
[مناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۲۰۶؛ بحار الانوار، ج۲۲، ص۱۹۱؛ ازواج النبی و بناتہ، ص۲۹۔۲۷؛ الصحیح من السیرہ، ج۲، ص۱۲۲۔۔]
آخر کار حضرت خدیجہ س نے ۲۵ یا ۲۷ سال کی عمر میں [الصحیح من السیرۃ، ج۲، ص۱۵۰۔۱۱۷؛ ازواج النبی و بناتہ، ص۳۰] خود ہی حضرت نبی اکرم ص سے عقد کا پیغام بھیجا اور یہ عقد مبارک اپنے خاص آداب کے ساتھ انجام پذیر ہوا۔
خدا نے آپ کو دو بیٹے: قاسم اور عبداللہ عنایت فرمائے جنہیں طیّب و طاہر بھی کہا جاتا تھا۔ اور بیٹیوں میں اکلوتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھرا س تھیں۔ اور دوسری بیٹیاں جناب خدیجہ کی بہن کی بیٹیاں تھیں جن کے والد کی وفات پر جناب خدیجہ ان کی ضروریات کو پورا کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ جب ان کی والدہ ہالہ کا انتقال ہوگیا تو یہ بیٹیاں نبی اکرم ص کی سرپرستی میں جناب خدیجہ کے ساتھ رہنے لگیں۔ لہذا لوگوں کے درمیان یہ مشہور ہوگیا کہ وہ نبی اکرم ص کی بیٹیاں ہیں۔
[مناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۲۰۶؛ بحار الانوار، ج۲۲، ص۱۹۱؛ بنات النبی ام ربائبہ۔ التعجب من اغلاط العامہ، ص۳۵ (۱۰۱)، الصحیح من السیرہ، ج۲۔۔۔]
آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہوگا کہ آپ ام٘ الائمہ المعصومین ع، زوجہ امیر المومنین ع، جدّہ حضرات معصومین ع حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی والدہ ہیں۔
حضرت خدیجہ س نے حضرت نبی اکرم ص کے ساتھ چوبیس برس ایک ماہ زندگی بسر کی اور جب تک آپ باحیات رہیں نبی اکرم ص نے کسی اور خاتون سے عقد نہیں کیا، اسی طرح جناب خدیجہ س نے اپنی تمام دولت نبی اکرم ص کو ہبہ کردیا۔
جناب عائشہ کہتی ہیں: بہت کم ایسا ہوتا تھا جب پیغمبر ص گھر سے باہر تشریف لے جارہے ہوں اور خدیجہ کا ذکر نہ کریں، یہاں تک کہ ایک دن میرے اندر آتش حسد بھڑک اٹھی اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کب تک خدیجہ کو یاد کرتے رہیں گے؟ وہ تو ایک بوڑھی عورت تھیں! خدا نے تو ان سے بہتر زوجہ آپ کو عنایت کی ہے! پیغمبر ص میری بات پر غضبناک ہوگئے اور فرمایا: نہیں، خدا کی قسم خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی زوجہ نہیں ملی، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ کافر تھے، انہوں نے اس وقت میری نبوت کی تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھے، اور اپنی ساری دولت میرے حوالہ کردی جب لوگ مجھے خود سے دور کررہے تھے۔ خدا نے خدیجہ کے ذریعہ مجھے اولاد عطا کی نہ کہ کسی اور کے ذریعہ۔
[ریاحین الشریعہ، ج۲، ص۲۰۲، ۲۰۷، ۲۱۱]
📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۰/ ربیع الاول، ص۱۰۷۔
https://www.facebook.com/klmnoor