۱۷/ ربیع الاول
۱ - #ولادت_پیغمبر_اکرم_صلی_اللہ_علیہ_و_آلہ
علمائے امامیہ کا اتفاق ہے کہ اس روز جمعہ کے دن علی الصباح مکہ معظمہ میں سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ و آلہ کی ولادت با سعادت واقع ہوئی ہے۔ آنحضرت (ص) کی ولادت انوشیروان عادل کی سلطنت کے ہم عصر تھی اور اسی سال اصحاب فیل ہلاک ہوئے۔
[تاج الموالید، ص۵، مسار الشيعه، ص۲۹۔۳۰؛ مصباح المتہجد، ص۷۳۳؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۴؛ اعلام الوریٰ، ج۱، ص۴۲۔۔۔]
آنحضرت (ص) کا اسم مبارک محمّد، اور کنیت ابو القاسم ہے؛ آپ (ص) کے والد محترم کا نام عبداللہ، اور والدہ ماجدہ کا نام آمنہ بنت وہب ہے۔
[اعلام الوری، ج۱، ص۴۵ ـ ۵۳؛ کشف الغمة، ج۱، ص۱۵]
ہنگام ولادت، آپ (ص) کی جبینِ مبارک سے نور ساطع ہو رہا تھا اور مشک کی خوشبو نکل رہی تھی۔ اس رات حجاز کی طرف سے نور ساطع ہوا اور تمام عالم میں پھیل گیا۔ شہنشاہوں کے تخت سرنگوں ہوگئے اور سبھی اس دن خاموش تھے اور کچھ کہنے سے قاصر تھے۔
ملائکہ مقرّبین اور ارواح انبیاء نے آنحضرت (ص) کی ولادت کے وقت حاضری دی، اور خازن بہشت رضوان حوروں کے ساتھ نازل ہوا، اور جنّت سے زمرد، سونے اور چاندی کے طشت اور کاسے حاضر کیے گئے اور جناب آمنہ کے لئے جنت سے مشروب لایا گیا جسے انہوں نے نوش کیا۔ ولادت کے بعد آنحضرت (ص) کو آبِ بہشت سے غسل دیا گیا اور جنّت کے عطر سے معطر کیا گیا۔
[حق الیقین، ص۲۷]
← وقتِ ولادت کے معجزات
آپ (ص) کی ولادت کے وقت تمام عالم کے بت منھ کے بھل گرگئے اور ایوان کسری کے چودہ کنگرے ٹوٹ گئے۔ دریائے ساوہ جس کی پرستش کی جاتی تھی سوکھ گیا اور نمک زار میں تبدیل ہوگیا۔
وادی ساوہ میں جہاں برسوں سے پانی نہیں دیکھا گیا تھا پانی جاری ہو گیا۔
ہزار برسوں سے خاموش نہ ہونے والا آتش کدہ وقت ولادت بجھ گیا۔
کاہنوں اور ساحروں کا علم باطل ہوگیا، اور طاق کسریٰ درمیان سے دو نیم ہوگیا جس کا نشان ابھی بھی باقی ہے۔
[امالی صدوق، ص۳۶۰؛ بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۷۔۲۶۳۔۳۲۳۔۔۔]
ہنگامِ ولادت آسمان سے ندا سنائی دی: جاءَ الحَقّ وَ زَهَقَ الباطلُ، إنَّ الباطِلَ کانَ زَهُوقاً۔
[بحار الأنوار، ج۱۵، ص۲۷۴؛ قلائد النحور، ج ربیع الأوّل، ص۱۰۱]
← آنحضرت (ص) کی خصوصیات
آنحضرت (ص) پر کبھی بھی مکھی نہیں بیٹھتی تھی، جب آپ (ص) کی آنکھ نیند میں ہوتی تھی تو قلب بیدار ہوتا تھا، اور ویسے ہی دیکھتے اور سنتے تھے جیسے بیداری کے عالم میں دیکھتے اور سنتے تھے۔ آپ (ص) پیچھے کی طرف ویسے ہی دیکھتے تھے جیسے سامنے دیکھتے تھے۔
جس جانور پر سوار ہوتے وہ کبھی ضعیف اور کمزور نہیں ہوتا۔
آنحضرت (ص) کے پاس یعفور نامی ایک خچّر تھا۔ اس کو جیسے ہی حکم دیتے کہ فلاں شخص کو حاضر کرے وہ اس کے دروازے پر جاتا، دروازے پر دستک دیتا اور اشارے سے اسے حاضر کرتا تھا۔
[قلائد النحور، ج ربیع الأوّل، ص۱۱۲ ـ ۱۱۰]
پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کے امتیازات میں سے یہ تھا کہ مختون اور ناف بریدہ و خون وغیرہ سے پاک و صاف متولد ہوئے، نیز ہنگام ولادت پیر کی جانب سے آئے نہ کہ سر کی طرف سے۔
ہنگام ولادت کعبہ کی جانب سجدہ کیا، اور سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد آسمان کی جانب بلند کیا اور خدا کی وحدانیت اور اپنی رسالت کا اقرار کیا، پھر آپ (ص) سے ایسا نور ساطع ہوا جس نے مشرق و مغرب کو منوّر کر دیا۔
[حق الیقین، ص۲۶]
← پیغمبر (ص) کے معجزات
نبی اکرم (ص) کے معجزات کثرت سے ہیں، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
[حق الیقین، ص۲۷ ـ ۲۶]
۱. مردوں کے زندہ ہونے، اندھوں کی بینائی آجانے اور بیماروں کے شفا پاجانے کے سلسلہ میں آپ (ص) کی دعا کا مستجاب ہونا۔
۲. آپ (ص) کا جانوروں سے کلام کرنا۔
۳. تمام زبانوں کا علم نیز تمام زبانوں میں بات کرنے کی قدرت ہونا۔
۴. پشت پر مہر نبوّت ثبت تھی جس کا نور آفتاب کے نور سے زیادہ درخشاں تھا۔
۵. آپ (ص) کے انگشتان مبارک سے پانی جاری ہوا، اس قدر کہ بہت سے لوگ سیراب ہوئے۔
۶. سنگریزے آپ (ص) کے دست مبارک پر تسبیح پڑھتے تھے اور لوگ سنتے تھے۔
۷. آپ (ص) کے وجود مقدس کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔
۸. جب بھی لعاب دہن کسی کنوئیں میں ڈال دیتے وہ کنواں بابرکت اور پانی والا ہوجاتا۔ اور کسی زخم پر لگا دیتے وہ شفا پاجاتا تھا۔
۹. جس طعام تک آپ (ص) کے دست مبارک پہونچ جاتے وہ با برکت ہوجاتا اور قلیل طعام سے کثیر لوگ سیر ہوجاتے تھے۔
۱۰. جب کسی نرم زمیں پر چلتے تو قدم کے نشان نہیں پڑتے تھے، اور جب کسی سخت اور پتھریلی زمیں پر قدم رکھتے تو اس پر نشان پڑجاتے تھے۔
یوم میلاد شریف نبی اکرم ص ایک عظیم اور با برکت دن ہے، اور قدیم الایام سے آل محمد (ص) کے صلحاء اس دن کا احترام، اور اس دن کا حق ادا کرتے رہے ہیں اور روزہ رکھتے رہے ہیں۔
جو ۱۷/ ربیع الأوّل کو روزہ رکھتا ہے خداوند متعال اسے ایک سال کے روزے کا ثواب عطا کرتا ہے، اس دن صدقہ دینا اور مشاہد مشرفہ کی زیارت کرنا، خیرات کرنا اور اہل ایمان کو شاد کرنا مستحب ہے۔
[مسار الشیعة، ص۳۰]
۲ - #ولادت_امام_صادق_علیہ_السلام
۱۷/ ربیع الأوّل سن ۸۳ ھ میں حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ولادت با سعادت مدینہ منورہ میں ہوئی ہے۔
[مناقب آل ابی طالب علیهم السلام، ج۴، ص۲۸۰؛ ارشاد، ج۲، ص۱۷۹]
آپ علیہ السلام کا اسم مبارک: جعفر، کنیت شریف: ابو عبداللہ اور لقب: صادق ہے۔
آپ (ع) کے والد ماجد حضرت امام محمّد باقر (ع)، اور والدہ گرامی جناب امّ فروه ہیں، جن کے بارے میں امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
"میری والدہ نیک کردار و صالح اور با ایمان خاتون تھیں؛ اور خدا نیک لوگوں کو دوست رکھتا ہے"۔
[الکافی، ج۱، ص۴۷۲؛ بحار الأنوار، ج۴۷، ص۷]
حضرت امام صادق (ع) کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، جن کے اسماء اس طرح سے ہیں: حضرت امام موسی کاظم (ع)، اسماعیل، عبداللہ، محمّد دیباج، اسحاق، علی عریضی، عبّاس، امّ فروه، اسماء اور فاطمہ۔
[مناقب آل ابی طالب علیهم السلام، ج۴، ص۲۸۰]
آپ علیہ السلام کے شمائل کے بارے میں کہتے ہیں:
امام علیہ السلام میانہ قد اور خوب رو، سفید بدن اور اونچی ناک کے حامل تھے اور موئے مبارک سیاہ اور گھنھرالے تھے اور رخسار پر ایک خال سیاہ موجود تھا۔
[مناقب آل ابی طالب علیهم السلام، ج۴، ص۲۸۰؛ منتھی الآمال، ج۲، ص۱۲۱]
📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۷/ ربیع الاول، ص۱۱۵