#نماز_کی_اہمیت
💠حضرت امام حسین(ع) کی نظرمیں💠
✍🏻نویں محرم تھی، عمرسعد کو حکم ہوا جنگ کا آغاز کرے۔ وہ اٹھا اور چلایا: يَا خَيْلَ اللَّهِ ارْكَبِي وَ أَبْشِرِي. اے لشکر خدا! سوار ہوجاؤ تمہیں جنت کی بشارت ہو۔
دوسری جانب امام حسین علیہ السلام خیمہ کے سامنے سر کو زانو پر رکھے آرام فرماتھے۔ جناب زینب نے گھوڑوں کے ہنہنانے اور دشمن کے نزدیک آنے کی آواز سنی، امام(ع) کے پاس پہونچیں اور کہا: اے بھائی! کیا دشمن کے قریب آنے کی آواز نہیں سن رہے ہیں؟
امام(ع) نے سر کو بلند کیا اور فرمایا: میں نے رسول اکرم(ص) کو خواب میں دیکھا جو مجھ سے فرمارہے تھے: تم میرے پاس آرہے ہو۔
جناب زینب (س) نے اپنا چہرہ پیٹ لیا، امام(ع) نے بہن کو تسلی دی، جناب عباس(ع) نے کہا: لشکر خیمہ کی جانب آرہا ہے۔ امام(ع) کھڑے ہوئے اور جناب عباس سے فرمایا: گھوڑے پر سوار ہو اور دشمن کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ کیوں آئے ہیں۔
جناب عباس(ع) 20 لوگ منجملہ زبیر اور حبیب کے ساتھ دشمن کے پاس آئے اورکہا: کیا ہے؟ تم کیا چاہتےہو؟ انھوں نے کہا: ابن زیاد کا حکم ہے کہ یا جو وہ کہتا ہے قبول کرو اور اس کے حکم پر تسلیم ہوجاؤ یا ہم تم سے جنگ کریں گے۔ جناب عباس(ع) نے فرمایا: ٹھہرو میں تمہارا پیغام حضرت ابی عبداللہ تک پہونچاتا ہوں، اس کے بعد آپ(ع) واپس آئے اور امام (ع) کو دشمن کے ارادوں سے باخبر کیا۔
امام (ع) نے فرمایا:
📜ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تُؤَخِّرَهُمْ إِلَى غَدٍ وَ تَدْفَعَهُمْ عَنَّا الْعَشِيَّةَ لَعَلَّنَا نُصَلِّي لِرَبِّنَا اللَّيْلَةَ وَ نَدْعُوهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ فَهُوَ يَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ قَدْ أُحِبُّ الصَّلَاةَ لَهُ وَ تِلَاوَةَ كِتَابِهِ وَ كَثْرَةَ الدُّعَاءِ وَ الِاسْتِغْفَار
👈ان کی طرف واپس جاؤ اگر ہوسکے تو انہیں کل تک ٹال دو اور اس رات ان کو ہم سے دور کردو، ہم چاہتے ہیں کہ:
💎آج کی رات اپنے معبود کی عبادت کریں، اس سے دعا کریں اور استغفار انجام دیں۔
وہ جانتا ہے کہ میں:
🔹اس کی نماز کو دوست رکھتا ہوں
🔹اور اس کی کتاب کی تلاوت کو پسند کرتا ہوں
🔹اور کثرت دعا و استغفار کا شوق رکھتا ہوں۔
📚وقعة الطف،ص195، [زحف ابن سعد إلى الحسين عليه السلام]؛ الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج2، ص91۔
💠💠💠💠💠
✍🏻حضرت امام حسین علیہ السلام کے باوفا اصحاب میں سے ایک ابوثمامہ صائدی تھے، عاشور کا دن ، جنگ کا میدان، ایک مرتبہ سورج کی طرف نظر کی، کہا: یا اباعبداللہ! میری جان آپ پر نثار، دشمن آپ کے قریب ہے، خدا کی قسم، ہرگز آپ کو مارا نہیں جاسکتا یہاں تک کہ میں آپ کے سامنے قتل ہوجاؤں، سورج نصف النہار سے گذرچکا ہے، میری تمنا ہے کہ خدا سے اس طرح ملاقات کروں کہ جس نماز کا وقت ہوگیا ہے پڑھ لی ہو۔
امام(ع) نے سرکو آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا:
🔸ذکرت الصلاۃ، جعلک اللہ من المصلین الذاکرین، نعم ھذا اول وقتھا، سلوھم ان یکفوا عنا حتی نصلی🔸
تم نے نماز کو یاد کیا ہے، خدا تمہیں نمازپڑھنے والوں ، خدا کو یاد کرنے والوں میں سے قرار دے، جی! نماز کا اول وقت ہے، دشمن سے کہو جنگ سے رک جائیں، تاکہ ہم لوگ نماز ادا کرسکیں۔
📚وقعة الطف ،ص229، [الاستعداد لصلاة الظهر] ؛ منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة (خوئى)، ج15، ص 301؛ سفينة البحار، ج1، ص516، أبو ثمامة الصائدي
توجہ⬇️
1️⃣جب ابوثمامہ نے نماز کی بات پیش کی تو حضرت امام حسین علیہ السلام نے یہ نہ فرمایا: ابھی جنگ کا وقت ہے، ایسے سخت لمحوں میں جنگ سے رکنا ممکن نہیں ہے۔
2️⃣امام(ع) نے ابوثمامہ کو نماز کی یاد پر دعا سے نوازا۔
3️⃣امام(ع) ابوثمامہ سے کہیں زیادہ نماز پر توجہ رکھتے تھے، لہذا یہ نہیں فرمایا: ’’ذکرتنی‘‘ تم نے مجھے نماز یاد دلائی، بلکہ فرمایا: ’’ذکرت الصلاۃ‘‘ تم نے نماز کو یاد کیا۔
4️⃣امام(ع) نے تمام تر سختیوں کے باوجود اصحاب سے چاہا کہ دشمن سے نماز کی فرصت طلب کریں۔
🔹امام حسین علیہ السلام نے اس کے بعد زہیر بن قین اور سعید بن عبداللہ کو حکم دیا کہ سامنے کھڑے ہوں، پھر آپ (ع) نصف ساتھیوں کے ساتھ نماز کے لئے کھڑے ہوئے، تیر چلے، سعید بن عبد اللہ نے ان کا مقابلہ کیا، اس طرح سے کہ تیروں کے سامنے خود کو ڈھال بنا لیا۔
📚عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار و الأقوال ، ج17، ص 264؛ سفينة البحار، ج1، ص 652، صلاة أصحاب الحسين عليه السلام جماعة ؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج45، ص 21۔
💫💫💫💫💫