علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 30 جون، 2024

یوم مباہلہ



۲۴/ ذی الحجہ


#یوم_مباہلہ


یہ دن جہاں ایک طرف سے اہل بیت علیہم السلام کا نجران عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کا دن ہے تو دوسری طرف اہل بیت علیہم السلام کی شان میں آیت تطہیر کے نزول کا دن ہے۔


[مسار الشیعہ، ص۲۲۔۲۳؛ العدد القویہ، ص۳۰۷-۳۰۸؛ مصباح کفعمی، ج۲، ص۶۰۱؛ بحار الانوار، ج۹۷، ص۱۶۸-۳۸۴؛ فیض العلام، ص۱۲۷۔۱۲۹، زادالمعاد، ص۲۸۷]


جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہم السلام کو بلایا اور فرمایا: اللھم ھولاء اھلی خدایا! یہی میں اہل بیت ہیں۔


[مناقب امیر المومنین، ج۱، ص۱۵۷؛ غایۃ المرام، ج۳، ص۲۳۰؛ مسند احمد، ج۱، ص۱۸۵؛ مستدرک حاکم، ج۲، ص۴۱۶؛ صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۱؛ شواہد التنزیل، ج۱، ص۱۱۶۱ تاریخ الخلفاء، ص۱۶۹]


←  پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ کا خط نجران کے نصاریٰ کے نام


ہجرت کے دسویں سال پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خط نجران کے نصاریٰ کے لئے ارسال کیا، اس مضمون کے ساتھ کہ خدائے واحد کی عبادت کریں اور اسلام قبول کرلیں، یا مسلمین کو جزیہ دیں اور اپنے مذھب پر قائم رہیں، ورنہ جنگ کے لئے تیار رہیں۔


بنو نجران نے اپنے بڑے کلیسا میں آپس میں مشورہ کیا، اور ان میں سے کچھ لوگوں نے جیسے قوم کی بزرگ شخصیت «سید» اور نجران کے پادری «عاقب» نے پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ کے مطالبہ کو ماننے سے انکار کیا۔


اس کے مقابل بعض لوگوں منجملہ ۱۲۰ سال کے سن رسیدہ، نجران کے اسقف اعظم اور اسلام کی طرف رغبت رکھنے والے «ابو حارثه» نے حکم پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ پر اتفاق کا اظہار کیا۔


دو روز کے مشاورتی اجلاس کے بعد طے ہوا کہ کتاب «جامعہ»  جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کے نبی کی صفات بیان کی گئی ہیں اور حضرت شیث علیہ السلام کے صحیفہ کو دیکھا جائے۔


عیسائیوں اور پیغبر صلّی اللہ علیہ و آلہ کے سفراء کے مجمع میں "جامعہ" کے چند باب پڑھے جاتے ہیں؛ جامعہ میں مذکورہ باتوں پر یقین کرتے ہوئے فیصلہ لیا گیا کہ سیّد، عاقب اور ابو حارثہ کی معیّت میں ۷۰ لوگوں کا ایک وفد اس کی تحقیق کے لئے مدینہ بھیجا جائے۔


←  نجران کے لوگ مدینہ میں


وہ لوگ مدینہ آئے اور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ 


آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ نے جو بھی دلیل و برہان پیش فرمائی انہوں نے قبول نہیں کیا اور بات مباہلہ تک آگئی۔ جبرئیل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور آیت لیکر آئے:


«فَمَنْ حَاجَّکَ فیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أبْناءَنا وَ أبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أنْفُسَنا وَ أنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکاذِبینَ» [آل عمران، آیت 61]


« آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں»


لہٰذا طے ہوا کہ مباہلہ کیا جائے گا، اور سید و عاقب مدینہ سے باہر اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا اور ان کے بعض علماء نے کہا: «اگر محمّد کل اپنے اصحاب اور لوگوں کی کثیر تعداد کے ساتھ آتے ہیں تو یہ بادشاہوں کا انداز ہوتا ہے اور گھبرانے کی بات نہیں ہے؛ لیکن اگر وہ اپنے خاص اہل بیت کو لے کر آتے ہیں تو یہ انبیاء کی سیرت ہے»۔


←  مباہلہ


دوسرے دن طلوع آفتاب کے وقت، پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور حجرہ سے باہر آئے۔


امام حسن و امام حسین علیہما السلام کو آگے رکھا اور حضرت صدیقہ کبری فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو پیچھے، یہاں تک کہ پہلے سے مقرر شدہ دو درختوں تک پہونچے، آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ کے حکم سے پہلے دونوں درختوں کے نیچے کی زمین کو صاف کیا گیا، اور ایک سیاہ چادر کو سائبان کے طور پر درخت پر ڈالا گیا۔ مدینہ کے مسلمین بھی آگئے، بنو نجران بھی اپنے فرزندوں کے ساتھ پہونچے۔ پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ نے سیّد اور عاقب کے پاس کسی کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ ہم تیّار ہیں۔


پادری اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا اور اس نے کہا:


آپ کن لوگوں کے ساتھ ہم سے مباہلہ کریں گے؟


پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:


«خدا کے نزدیک اہل ارض کے سب سے افضل اور سارے عالم سے نیک اور بہتر لوگوں کے ساتھ کیونکہ خدا کی جانب سے حکم ہوا ہے کہ میں ان کو لاؤں»، اور آل عبا علیہم السلام کی جانب اشارہ کیا۔


سید و عاقب اور پادری نے  جیسے ہی نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ اور آل عبا علیہم السلام کی طرف دیکھا، تو اس قدر وحشت طاری ہوئی کہ چہرے زرد پڑ گئے۔


ابو حارث جو اسلام کی طرف راغب تھے، فرصت کو غنیمت دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور سید و عاقب کا ہاتھ پکڑ کے پیچھے کھینچ لیتے ہیں اور انہیں نصیحت کرتے ہیں اور اس مباہلہ کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:


آپ نے ان کی اور ان کے اہل بیت کی صفات کو کتابوں میں پڑھا ہے۔ یہ محمّد صلّی اللہ علیہ و آلہ وہی پیغمبر ہیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں ان سیاہ بادلوں کو، سورج کے بدلتے رنگ کو، درختوں کی خم ہوتی ہوئی شاخوں کو، مرغابیوں کی آوازوں کو، اور اپنے ارد گرد سیاہ دھوئیں اور زلزلہ کے آثار کو جو پہاڑوں پر نمایاں ہیں۔


وہ بزرگ حضرات دست دعا بلند کرنے کے لئے تیار ہیں۔ خدا کی قسم اگر وہ بول پڑیں تو ہمارا نام نشان نہیں ملے گا۔ چلیں ان سے صلح کرلیتے ہیں۔


←  نجرانیوں کا مباہلہ سے گریز


بنی نجران نے ابو حارث کو بھیجا اور وہ مسلمان ہوگئے اور عرض کیا:

 

نجران کے لوگ مباہلہ سے دستبردار ہوگئے ہیں۔


آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:


تو اسلام لے آئیں۔


کہا:


وہ اس پر راضی نہیں ہیں۔

 

فرمایا:


پھر جنگ کے لئے تیار رہیں۔


کہا:


وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن جزیہ قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔


پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ نے امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا:


«ذمّہ کے شرائط اور اس کی مقدار انہیں بتادیں»۔


جزیہ اور اس کی شرطیں معین کرنے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام انہیں نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ کے پاس لاتے ہیں، آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:


«اگر تم مجھ سے اور میرے ان اہل بیت سے تم مباہلہ کرتے، تو بندر اور خنزیر کی شکل میں بدل جاتے اور یہ وادی تمہارے لئے جہنّم ہوتی اور ایک سال بھی نہیں لگتا کہ سارے کے سارے نصاریٰ نابود ہوجاتے». 


[تفسیر برہان، ج۱، ص۲۸۷۔۲۸۸؛ قلائد النحور: ج ذي الحجه، ص۴۲۷-۴۳۸۔۴۴۱؛ تاریخ المدینہ، ج۲، ص۵۸۲؛ الدر المنثور، ج۲، ص۳۹؛ جامع البیان، ج۳، ص۴۰۹]


📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۲۴/ ذی الحجہ، ص۳۸۸



https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor