۲۷/ رجب
#بعثت_نبی_اکرم_صلی_اللہ_علیہ_و_آلہ
اس دن ۴۰ برس کی عمر میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت ہوئی اور آنحضرت ص پر قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا۔
[اعلام الوري: ج۱، ص ۴۶ . مصباح المتهجد: ص ۷۵۰ . مسار الشیعه: ص ۳۷ . تهذیب: ج ۶، ص ۲. العدد القویه: ص ۳۳۷ . زادالمعاد: ص ۳۶. فیض العلام: ص۳۲۸]
یہ دن عظیم عیدوں کے ایّام میں سے ہے، جس دن حضرت رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث برسالت ہوئے اور جبرئیل ع آنحضرت ص پر نازل ہوئے۔ [زاد المعاد، ص۳۶]
غیر شیعہ حضرات ۱۷ یا ۱۸ یا ۲۶ رمضان اور بعض ۱۲ ربیع الاول کو بعثت نبی صلّی اللہ علیہ و آلہ جانتے ہیں۔
اس دن پیغمبر صلّی اللہ علیہ وآلہ اور انکے اہل بیت علیہم السلام پر صلوات نیز آنحضرت ص اور حضرت امیر المومنین ع کی زیارت وارد ہوئی ہے۔ [زاد المعاد، ص۳۶]
انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت کا بڑاعرصہ گزر چکا تھا، اور ہر قوم، قبیلہ مختلف عقائد کے ساتھ زندگی کر رہا تھا، اور حجاز و مکّہ میں بہت سے لوگ بتوں کی پرستش کر رہے تھے: پتّھر، لوہے، لکڑی اور کبھی خرما وغیرہ کے بت۔
لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔
اکثر قبیلے قتل، غارتگری، خوں ریزی میں مبتلا تھے۔ دنیا ضلالت و گمراہی میں غرق تھی۔ یہاں تک کہ جب اشرف مخلوقات، سرور کائنات حضرت محمد بن عبد اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ کی ولادت با سعادت کے ۴۰ برس گزر ے۔
خدا نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ کو مبعوث رسالت فرمایا، اور جبرئیل علیہ السلام آنحضرت ص پر نازل ہوئے اور مخصوص آداب اور انداز کے ساتھ وحی الہٰی پہونچائی جس کی تفصیل حدیثی کتب میں مختلف سندوں کے ساتھ ذکر کی گئی ہے۔
بعض روایات کے مطابق [منتہی الامال، ج۱، ص۴۷] جس وقت آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہ کوہ حرا سے واپس تشریف لارہے تھے انوار جلالت و بزرگی آپ پر اس قدر احاطہ کئے تھا کہ کوئی آپ ص پر نظر ڈالنےکی تاب نہیں رکھتا تھا، جس سبزے ، درخت، پتّھر کے پاس سے گزرتے تھے وہ آپ ص کے سامنے خم ہوجاتے اور بزبان فصیح کہتے:
"السلام علیک یا نبی الله، السلام علیك یا رسول الله"
جس وقت حضور صلّی اللہ علیہ و آلہ جناب خدیجہ کے گھر میں وارد ہوئے، انوار جمال آنحضرت ص سے پورا گھر منوّر ہو اٹھا۔
جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے عرض کیا:
اے محمد، یہ کیسا نور ہے جو میں آپ میں مشاہدہ کررہی ہوں؟
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:
یہ نورِ رسالت ہے۔ پھر جناب خدیجہ علیہاالسلام سے فرماتے ہیں: کہو:
" لااله الّا الله محمّد رسول الله"
خدیجہ سلام اللہ علیہا نے عرض کیا:
میں تو برسوں سے آپ کی رسالت سے واقف ہوں۔ پھر خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا کلمہ پڑھا۔
اسی اثناء میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:
"اے خدیجہ! میں سردی کا احساس کررہاہوں ایک چادر مجھ پر ڈال دیں"
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ نے چادر اوڑھی اور آرام فرما ہوئے، تبھی حق تعالیٰ کی جانب سے آواز آئی:
ﻳﺎ أﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟﻤُﺪَّﺛِّﺮ، ﻗُﻢ ﻓَﺎَﻧﺬِﺭ ﻭَ رَبَّکَ ﻓَﻜَﺒِّﺮ ... [سورہ مدّثر، آیت۱]
اے چادر اوڑھنے والے! اٹھ جائیے اور لوگوں کو عذاب پروردگار سے خبردار کیجیے اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کیجئے۔
آنحضرت ص اٹھے اور انگشت مبارک کو کان پر رکھا اور فرمایا:
"الله اکبر، الله اکبر" آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی آواز سبھی مخلوقات تک پہونچی اور سب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی موافقت کی۔ [بحار الانوار، ج۱۸، ص۱۹۶۔۱۹۷؛ منتہی الامال، ج۱، ص۴۷؛ شجرہ طوبی، ج۲، ص۲۲۷؛ العدد القویہ، ص۳۳۸؛ تاریخ دمشق، ج۶۳، ۱۸]
پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ تین سال تک مخفی طور پر دعوت توحید کرتے رہے، اور پھر تین سال کے بعد جبرئیل آئے اور عرض کیا:
" خداوند متعال کا حکم ہے کہ اپنی دعوت کو آشکار کرو"۔
اس وقت آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو انذار فرمایا اور اپنی دعوت کا اعلان عام کیا۔ [بحارالانوار، ج۱۸، ص۱۷۴۔۱۸۶]
📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۲۷/ رجب، ص۲۲۱۔