علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

ہفتہ، 24 فروری، 2024

۱۵/ شعبان: ولادت حضرت بقیۃ اللہ الاعظم صلوات اللہ علیہ



۱۵/ شعبان


#ولادت_حضرت_بقیۃ_اللہ_الاعظم_صلوات_اللہ_علیہ


شب جمعہ سنہ ۲۵۵ھ میں، حضرت خاتم الاوصیاء، منتقم آل محمد ص، آخری امام برحق اور ولی مطلق خدا حضرت بقیۃ اللہ حجۃ بن الحسن عجل اللہ تعالی فرجہ کی ولادت با سعادت واقع ہوئی ہے۔ [ الکافی، ج۱، ص۵۱۴؛ الارشاد، ج۲، ص۳۳۹؛ مسار الشیعۀ، ص۳۸۔۔۔]


اس رات آب زمزم اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ سب لوگ اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ [تقویم الواعظین، ص۱۳۶] لیکن اب اس کو ڈھک دیا گیا ہے؛ اس شب برائت میں کثیر تعداد میں لوگوں کی آتش جہنم سے آزادی لکھی جاتی ہے؛ اور اس رات کو "شب برات" اور "شب مبارک" اور "شب رحمت" کہتے ہیں۔


حضرت امام باقر و امام صادق علیہما السلام سے روایت ہے کہ فرمایا:  جب شب نیمہ شعبان آتی ہے، افق اعلیٰ سے منادی آواز دیتا ہے: " اے زائرین قبر حسین بن علی واپس جائیں کہ تمہارے گناہ بخش دیئے گئے ہیں، تمہارا اجر تمہارے خدا اور رسول خدا ص پر ہے۔ [الکافی، ج۴، ص۵۸۹۔۔۔] لیکن جو زیارت قبر امام حسین علیہ السلام کی استطاعت نہیں رکھتے وہ دیگر ائمہ کی قبور مطہرہ کی زیارت کریں؛ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ان کی قبر کی طرف رخ کرکے سلام کریں۔ [مسار الشیعۀ، ص۳۸۔۔۔]


امام عج کے پدر بزرگوار حضرت ابو محمد امام حسن العسکری علیہ السلام ہیں، اور والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون ہیں؛ اور امام عج کا اسم شریف اصحاب اور روایات کے مطابق اپنے جدّ خاتم الانبیاء کے نام پر "م ح م د" عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہے۔ [الارشاد، ج۲، ص۳۳۹۔۔۔ ]


← شب ولادت کے حالات


حضرت امام عسکری علیہ السلام شب ولادت میں اپنی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کو پیغام بھیجا کہ: « آج کی شام ہمارے ساتھ افطار کریں کہ یہ شب نیمہ شعبان ہے اور خداوندعالم آج کی رات اپنی حجّت کو آشکار کرنے والا ہے»


حضرت امام عصر عج کی ولادت با سعادت سامرا میں طلوع فجر کے وقت نیمہ شعبان ۲۵۵ھ میں ہوئی۔ امام عج کے داہنے شانے پر تحریر تھا: «ﺟﺎﺀَ ﺍﻟﺤَﻖُّ ﻭَ ﺯَﻫَﻖَ ﺍﻟﺒﺎﻃِﻞُ إﻥَّ ﺍﻟﺒﺎﻃِﻞَ ﻛﺎﻥَ ﺯَﻫُﻮقاً» [سوره اسراء، آیت۸۱]


ولادت کے بعد آپ عج کو والد کے پاس لایا گیا، آپ عج نے اس جملہ سے کلام کا آغاز کیا: «ﺃﺷﻬَﺪُ ﺃﻥ ﻟﺎ إﻟﻪَ إﻟﺎَّ اللهُ ﻭَ ﺃﺷﻬَﺪُ ﺃﻥَّ ﻣُﺤَﻤَّﺪﺍً ﺭَﺳُﻮﻝُ الله ﻭَ ﺃﻥَّ ﻋَﻠِﻴّﺎً ﺃﻣﻴﺮَ ﺍﻟﻤُﺆﻣِﻨﻴﻦَ ﻭَﻟِﻰُّ ﺍﻟﻠﻪِ» اور یکے بعد دیگرے ائمہ معصومین کا نام لیا یہاں تک کہ خود اپنے نام تک پہونچے اور اپنے محبّوں کے لئے دعا فرمائی۔


← امام عصر عج آغوش پدر میں


اس کے بعد امام عسکری ع کے امر پر حکیمہ خاتون آپ عج کو آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون کے پاس لے گئیں۔ حکیمہ خاتون کہتی ہیں: میں ساتویں دن امام عسکری ع کے پاس گئی، تو آپ ع نے فرمایا: میرے بیٹے کو لائیں؛ میں انہیں امام ع کے پاس لائی؛ آپ ع نے اپنی زبان مبارک کو اس کے دہن مبارک میں رکھ کر فرمایا: میرے بیٹے! کلام کرو۔


میں نے دیکھا خدا کی وحدانیت کے اقرار، ثنائے پیغمبر ص و امیر المومنین ع و دیگر ائمہ ع کو دوبارہ انجام دیا جسے میں نے پہلے روز سنا تھا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی: «ﺑِﺴﻢِ ﺍﻟﻠﻪِ ﺍﻟﺮَّﺣﻤﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣﻴﻢِ وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْأَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامَانَ وَ جُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ». [ﺳﻮﺭہ ﻗﺼﺺ، ﺁﻳﺎﺕ 6 ـ 5] 


پھر ان کے والد بزرگوار نے فرمایا: «جو خدا نے اپنے رسولوں پر نازل کیا ہے اسے پڑھو»۔ ﺣﻀﺮﺕ عج نے سریانی زبان میں ﺻُﺤُﻒ ﺁﺩﻡ کو پڑھنا شروع کیا، اسکے بعد ﻛﺘﺎﺏ إﺩﺭﻳﺲ، ﻧﻮﺡ، ﺻﺎﻟﺢ، ﺻُﺤُﻒ ﺍﺑﺮﺍہیم، ﺗﻮﺭﺍﺕ ﻣﻮﺳﻰ، ﺍﻧﺠﻴﻞ ﻋﻴﺴﻰ، ﺯَﺑُﻮﺭ ﺩﺍﻭﺩ اﻭر ﻓﺮﻗﺎﻥ ﻣﺤﻤّﺪ ص کی تلاوت کی، اسکے بعد ﻗﺼﺺ ﺍﻧﺒﻴﺎﺀ ﻭ ﻣﺮﺳﻠﻴﻦ کا بیان شروع کیا۔


حکیمہ خاتون کہتی ہیں: میں چالیس دن کے بعد دوبارہ اپنے بھتیجے امام عسکری ع کے پاس آئی اور دیکھا کہ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻟﺰﻣﺎﻥ ع چلنے لگے ہیں۔ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﺴﻜﺮﻯ ع نے فرمایا: «پھوپھی جان! خدا کے نزدیک عزیز مولود یہ ہے»۔ میں نے کہا: میرے مولا! چالیس دن میں اس کی نشو و نما کو دوسروں سے زیادہ دیکھ رہی ہوں! فرمایا: «پھوپھی جان! ہم اوصیائے الہی کے ایک دن کی نشو و نما دوسروں کے ایک ہفتہ کی، اور ایک جمعہ کی نشو و نما دوسروں کے ایک سال کی ہوتی ہے۔ میں اٹھی اور طفل کے سر کا بوسہ لیا اور گھر واپس چلی گئی۔ [بحار الأنوار، ج۵۱، ص۲۰، ۲۷۔۔۔]


←القاب امام عصر عج


اس نور الہی کے بعض القاب: "ﺣﺠّﺔ ﺍﻟﻠﻪ" "ﺣﺠّﺔ ﺁﻝ ﻣﺤﻤّﺪ" "ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻟﺰﻣﺎﻥ" ﻳﻌﻨﻰ اپنے زمانے کا حاکم، "ﻣﺎلک ﺭﻗﺎﺏ ﺍﻟﺨﻠﺎﻳﻖ" ﻳﻌﻨﻰ ہر ﺍﻣﺮ اس کا ﺍﻣﺮ، نہی اس کی نہی، اور ﺣﻜﻢ اس کا ﺣﻜﻢ ہے؛ "ﻣﻬﺪﻯ" کہ مخلوق اس کے ذریعہ ہدایت پائے گی اور اس کے وجود سے ضلالت کی راہ سے ہدایت کی شاہراہ پر آکر کامیاب ہوگی، "ﻗﺎﺋﻢ" جس کے بارے میں امام ﺻﺎﺩﻕ ع فرماتے ہیں: «چونکہ آپ ع قیام فرمائیں گے قائم کہا گیا ہے»، "ﻣﻨﺘﻈَﺮ" ان کی غیبت طولانی ہوگی اور ان کے مخلصین انتظار میں رہیں گے اور ﺷﻜّﺎﻛﻴﻦ ان کا انکار کریں گے۔

[کفایة الموحّدین، ج۳، ص۳۴۳۔۔۔]


← اوصاف امام عصر عج


امام ع کے ظاہری ﺍﻭﺻﺎﻑ حضرت ﺭﺳﻮﻝ ﮔﺮﺍﻣﻰ ﺍﺳﻠﺎﻡ ص سے بہت زیادہ مشابہ ہیں، ﺯُﻣُﺮّﺩ جیسی سبز رنگ کے بالوں کی ایک لکیر گردن سے ناف تک ہے، چہرہ نورانی ستارے کی طرح چکتا دمکتا ہے۔ حضرت اﻣﻴﺮ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ع فرماتے ہیں: «وہ ایک خوش رو، خوش مو جوان ہے اس کے چہرہ کا نور ریش مبارک اور سر کے بالوں کی سیاہی پر غالب ہے۔۔۔۔» [الغیبة (شیخ طوسی)، ص۴۷۰۔۔۔] حضرت ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ع فرماتے ہیں: «ان کا ﺭﻧﮓ ﻣﺒﺎﺭک سرخی مائل ہے جیسے شگفتہ گلاب ہو، اور چشم مبارک گشاد، ابرو کے درمیان کی جگہ بلند اور دونوں شانوں کے درمیان کی جگہ چوڑی ہے»۔ [[الغیبة (شیخ طوسی)، ص۲۱۵۔۔۔] چوڑی پیشانی، بلند اور باریک ناک، اور دندان ثنایا کی جڑ کے درمیان فاصلہ ہے۔


←ﻣﺎﺩﺭ ﺍﻣﺎﻡ عصر عج


ﺣﻀﺮﺕ ﺻﺎﺣﺐ ﺍلأﻣﺮ عج کی والدہ جناب ﻧﺮﺟﺲ ﺧﺎﺗﻮﻥ ہیں، جنکے دیگر نام اور القاب ملیکہ، ریحانہ، صیقل، اور سوسن ہیں۔ زیارت میں آپ کی توصیف۔ جو تمام کی تمام آپ کی عظمت و منزلت پر دلالت کررہی ہےـ ﺭﺍﺿﻴﻪ، ﻣﺮﺿﻴﻪ، ﺻﺪّﻳﻘﻪ، ﺗﻘﻴّﻪ، ﻧﻘﻴّﻪ، ﺯﻛﻴّﻪ، والدة الامام، المودعة اسرار الملک العلّام، امّ موسی، ابنة حواری عیسی سے کی گئی ہے۔ [بحار الأنوار، ج۹۹، ص۷۰۔۔۔]


بنا بر منقول ﺟﻨﺎﺏ ﻧﺮجس خاتون نے سنہ261ھ میں ﺳﺎﻣّﺮﺍﺀ میں رحلت فرمائی اور ﺣﻀﺮﺕ ہاﺩﻯ ﻭ عسکری ع کے جوار میں دفن ہوئیں۔ [ﺭﻳﺎﺣﻴﻦ ﺍﻟﺸﺮﻳﻌﺔ، ﺝ۳، ﺹ۲۶ ـ ۲۵]


دوسرے قول کے مطابق آپ امام عسکری ع کی شہادت سے قبل سنہ260ھ میں دنیا سے گئی ہیں۔ کیونکہ جب امام ع نے اپنی شہادت کے بعد کے حالات سے آگاہ کیا تو جناب نرجس خاتون نے آپ ع سے درخواست کی کہ دعا فرمائیں کہ آپ ع سے پہلے ہی رحلت ہوجائے۔ [ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺳﺎﻣﺮﺍﺀ، ﺝ۱، ﺹ۲۴۳۔۔۔]


جناب ﺣﻜﻴﻤﻪ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻮﺍﺩ ﺍﻟﺎﺋﻤﺔ ع کی بیٹی ہیں، جنہیں چار معصوم اماموں کی زیارت کی توفیق ملی۔ [ﺑﺤﺎﺭ ﺍلأﻧﻮﺍﺭ، ﺝ۵۰، ﺹ۸] ان کی رحلت سنہ۲۷۴ھ میں سامرا میں ہوئی ہے۔ [ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺳﺎﻣﺮﺍﺀ، ﺝ۱، ﺹ۲۳۹]


آپ ﻣَﺤﺮﻡ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﺍہل ﺑﻴﺖ ع تھیں، اور حضرت امام عصر عج کی ولادت کے وقت حاضر تھیں اور کئی بار امام عج کی زیارت سے ﻣﺸﺮّﻑ ہوئی ہیں۔ امام عسکری کی شہادت کے بعد آپ ان کے "سفیروں" میں سے تھیں جن کے واسطے سے لوگ اپنی حاجات تک پہونچتے تھے۔ [ﺭﻳﺎﺣﻴﻦ ﺍﻟﺸﺮﻳﻌﺔ، ﺝ۴، ﺹ۱۵۰]


←امام عصر عج کی ولادت کے بعد


حضرت امام عصر عج کی ولادت کے ایک دن بعد خادم امام ع کی خدمت میں آیا اور اسے چھینک آگئی، امام ع نے فرمایا: «ﻳَﺮحَمکَ الله» اس کے بعد فرمایا: «چھینک تین دن کے لئے موت سے امان ہے»۔ [کمال الدین، ﺹ۴۳۰، ۴۴۱۔۔۔] یہ واقعہ ۲۵ شعبان میں بھی ذکر ہوا ہے [الغیبة (شیخ طوسی)، ص۲۳۲۔۔۔]


امام عج کی ولادت کے تین دن بعد امام عسکری ع اپنے فرزند کو اپنے خاص اصحاب کے سامنے لائے اور اس کی امامت کی تصدیق فرمائی۔ [ﻭﻗﺎﻳﻊ ﺍﻟﺸﻬﻮﺭ، ﺹ۱۴۷]


← غیبت صغریٰ


غیبت صغریٰ کے زمانے میں شیعوں میں سے چار لوگ ترتیب کے ساتھ امام عصر عج کے وکیل، اور نائب خاص رہے، جو امام عج کی خدمت میں جاتے تھے اور انہیں امام عج جانب سے وکالت کی تائید حاصل تھی؛ اور خط کے نیچے امام عج کا تحریر شدہ جواب انھیں نوّاب کے ذریعہ لوگوں تک پہونچتا تھا۔


البتّہ ان چار افراد کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں امام عصر عج کی طرف سے وکیل معین تھے جو انہیں چار افراد کے واسطے سے لوگوں کی باتوں کو امام عج کی خدمت میں پہونچاتے تھے اور امام عج کی طرف سے ان کے سلسلہ میں توقیع صادر ہوئی تھی۔ [الغیبة (شیخ طوسی)، ص۴۱۵۔۔۔]


ان چار بزرگوں کی سفارت مطلق اور کامل تھی، لیکن دیگر افراد خاص موارد میں سفارتی اختیار رکھتے تھے، جیسے ابو الحسن محمّد بن جعفر اسدی، احمد بن اسحاق اشعری، ابراهیم بن محمّد همدانی، احمد بن حمزة بن الیسع. [الغیبۃ (شیخ طوسی)، ص۴۱۵؛ المهدی علیه السلام، ص ۱۸۱۔۔۔]


نوّاب اربعہ مندرجہ ذیل افراد ہیں:


ابو عمر عثمان بن سعید عَمری، ابو جعفر محمّد بن عثمان بن سعید عَمری، ابو القاسم حسین بن روح نوبختی، ابو الحسن علی بن محمّد سَمُری.


نائب اوّل عثمان بن سعید جلیل القدر اور قابل اعتماد انسان تھے، اور حضرت امام ہادی ع و عسکری ع کے وکیل بھی تھے۔ [المھدی، ص۱۸۱۔۔۔] وہ امام عج کی جانب سے امام عسکری ع کے کفن و دفن پر مامور ہوئے۔ [الغیبة (شیخ طوسی)، ص۳۵۶]


چونکہ امام عسکری ع محلہ عسکر میں رہتے تھے اور شیعوں سے ملاقات مشکل ہوتی تھی، عثمان بن سعید جو گھی کے کاروبار میں تھے، چیزوں کو گھی کے برتن میں رکھ کر امام ع کی خدمت میں پہونچاتے تھے۔


احمد بن اسحاق قُمی نے جس وقت امام ہادی ع سے سوال کیا: مولا! میں کبھی یہاں پر ہوں کبھی نہیں ہوں، اور جب یہاں پر ہوں تب بھی ہمیشہ خدمت سے شرفیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت میں کس کی بات کو قبول کروں اور کس کی اطاعت کروں؟ امام ع نے فرمایا: «یہ عثمان بن سعید عَمری میرے امین اور معتمد ہیں، یہ جو بھی کہیں وہ میری ہی طرف سے کہا ہے اور جو چیز بھی تم تک پہونچائیں وہ میری طرف سے ہوگی»۔


احمد بن اسحاق کہتے ہیں: امام ہادی ع کی شہادت کے بعد امام عسکری ع کی خدمت میں گیا اور یہی بات دہرائی، آپ ع نے اپنے والد کی طرح فرمایا: «ابو عَمرو گذشتہ امام کے امین اور معتمد اور میری زندگی میں اور موت کے بعد بھی میرے معتمد ہیں۔ جو بھی یہ آپ کو بتائیں اور جو چیز بھی آپ تک پہونچائیں وہ میری جانب سے ہے»


عثمان بن سعید امام عسکری ع کے بعد حضرت حجّت عج کے حکم سے نیابت اور وکالت کا کام کرتے رہے، اور شیعہ حضرات اپنے مسائل کو انکے پاس پہونچاتے تھے اور امام عج کا جواب ان کے ذریعہ لوگوں تک پہونچتا تھا۔


نائب دوّم ابو جعفر محمّد بن عثمان تھے، وہ بھی اپنے والد کی طرح بزرگان شیعہ میں سے تھے اور تقوی، عدالت، اور بزرگواری میں قابل اعتماد اور شیعوں کے نزدیک محترم شخص تھے۔ عثمان بن سعید نے اپنی وفات سے پہلے امام عصر عج کے حکم پر ابو جعفر کا اپنے جانشیں اور امام عج کی نیابت کے عنوان سے تعارف کرایا۔ امام عسکری ع نے ابوجعفر اور ان کے والد پر اعتماد اور اطمینان کا اظہار فرمایا تھا اور شیعہ حضرات ان کی عدالت، تقوی اور اطاعت پر یقین رکھتے تھے۔ [بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۴۶۔۳۴۴۔۔۔]


نائب اوّل عثمان بن سعید کی وفات پر امام عصر عج کی جانب سے ایک  توقیع صادر ہوئی جس کا ایک حصّہ کا ترجمہ اس طرح سے ہے: «انا لله و انا الیه راجعون، خدا کے حکم پر تسلیم اور اس کی قضا پر راضی ہوں۔ آپ کے والد نے سعادت کی زندگی گزاری اور بہترین حالت میں دنیا سے گئے۔ خدا ان پر رحمت نازل کرے اور انہیں انکے ائمہ علیہم السلام سے ملحق فرمائے۔ یہ آپ کے والد کی سعادتمندی تھی کہ خدا نے انہیں آپ جیسا فرزند عطا کیا جو ان کے بعد جانشیں بنے اور ان کے امور کے سلسلہ میں ان کا قائم مقام ہو، اور ان کے لئے طلب رحمت و مغفرت کرے»۔ [کمال الدین، ص۵۱۰۔۔۔]


محمّد بن عثمان سے سوال ہوا: کیا آپ نے صاحب الامر عج کو دیکھا ہے؟ جواب دیا: ہاں، اور ان سے ہماری آخری ملاقات بیت اللہ میں ہوئی تھی جب وہ فرما رہے تھے: «اللّهُمَّ أنجِز لی ما وَعَدتَنی» اور رکن یمانی کے نزدیک بھی دیکھا جب کہہ رہے تھے: «اللّهُمَّ انتَقِم لی مِن أعدائی»۔ [من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۵۲۰۔۔۔]


انہوں نے فقہ میں کتاب بھی تالیف فرمائی جو امام عسکری ع اور اپنے والد سے سنے ہوئے اقوال پر مشتمل ہے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۶۳]


محمّد بن عثمان نے اپنے واسطے ایک قبر آمادہ کر رہی تھی اور ساج سے بند کردیا تھا اور اس پر قرآن کی آیتوں اور ائمہ اطہار عج کے اسماء کو تحریر کر رکھا تھا۔ وہ ہر دن اس قبر میں جاتے اور اس میں ایک جز قرآن کی تلاوت کرتے اور باہر آجاتے تھے۔ انہوں نے موت سے پہلے اپنے یوم وفات کی خبر دی تھی اور جس دن کی خبر دی تھی اسی دن وفات پائی۔ [الکنی و الالقاب، ج۳، ص۲۶۸۔۲۶۷۔۔۔] اسی طرح اپنی وفات سے قبل شیعوں کو خبر دی کہ امام عج نے جناب ابو القاسم حسین بن روح نوبختی کو اپنے سفیر اور رابطہ کے لئے انتخاب کیا ہے اور وہ میرے جانشیں ہیں، سب ان سے رجوع کریں۔ [کمال الدین، ص۵۰۳۔۔۔] ان کی وفات آخر جمادی الاولی سنہ ۳۰۵ھ میں ہوئی ہے۔[الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۶۶۔۔۔]


نائب سوّم ابو القاسم حسین بن روح نوبختی ہیں، جو موافق و مخالف دونوں کی نظر میں صاحب عظمت، اور تمام فرقوں میں عقل، نظر، تقوی اور فضیلت میں معروف تھے اور نائب دوّم کے وقت انکی جانب سے بعض امور کو انجام دیا کرتے تھے۔


اگرچہ نائب دوّم کے قریبیوں میں، جعفر بن احمد بن متیل سب سے زیادہ ان کے قریب تھے، یہاں تک کہ محمّد بن عثمان کے آخری ایام میں، انکے گھر کا کھانا وغیرہ جعفر بن احمد بن متیل کے گھر میں مہیا کیا جاتا تھا، اور اصحاب کے درمیان جعفر بن احمد کی نیابت کا احتمال زیادہ پایا جاتا تھا، لیکن محمد بن عثمان کے آخری لمحات میں جب جعفر بن احمد سرہانے اور حسین بن روح پائنتی کی جانب بیٹھے تھے، انہوں نے جعفر بن احمد کی جانب رخ کیا اور فرمایا: «مجھے حکم ہوا ہے کہ امور کو حسین بن روح کے سپرد کروں»۔ جعفر بن احمد کہتے ہیں: میں اپنی جگہ سے اٹھا اور حسین بن روح کا ہاتھ پکڑا اور انہیں محمّد بن عثمان کے سرہانے بٹھایا اور خود پائنتی کی جانب جا بیٹھا۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۷۰۔۔۔]

۶ شوال سال ۳۰۵ھ میں امام عصر عج کی جانب سے ان کے لئے پہلی توقیع صادر ہوئی جس میں اس طرح تحریر تھا: «ہم انہیں پہچانتے ہیں، خدا انہیں اپنی تمام خیر و خوبی اور رضا کی طرف لے دے اور ان کی مدد فرمائے۔ ان کے خط سے مطلع ہوا، مجھے ان پر اعتماد اور اطمینان ہے۔ میرے نزدیک ان کا وہ مقام و مرتبہ ہے جو انکی خوشنودی کا سبب ہوگا۔ خدا ان پر اپنے احسان میں اضافہ فرمائے کہ خدا ولی اور ہر چیز پر قادر ہے، اور اس خدا کا شکر جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے رسول محمد و آل محمد ص پر درود و سلام ہو»۔


[الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۷۳۔۔۔]


بغداد کے عظیم متکلم اور متعدد کتب کے مؤلف ابو سہل نوبختی سے سوال ہوا: کیوں حسین بن روح کو نیابت کا عہدہ ملا لیکن آپ کو نہیں؟ کہا: ائمہ علیہم السلام بہتر جانتے ہیں، اور وہ جن کو منتخب کریں وہی سب سے زیادہ مناسب اور لائق ہوگا، میں ایسا شخص ہوں جو مخالف سے شدّت کے ساتھ مناظرہ کیا کرتا ہے اور اگر امام عج کا نائب ہوتا اور امام عج کی جگہ کی معلومات رکھتا جیسا کہ ابوالقاسم نیابت کی بنا پر معلومات رکھتے ہیںـ اور امام عج کے بارے میں مخالفوں سے بحث و مناظرہ پر مشکل میں پڑجاتا تو شاید خود پر قابو نہ کر پاتا اور امام عج کی جائے سکونت کو فاش کردیتا؛ لیکن ابو القاسم اگر امام عج ان کے دامن کے نیچے بھی ہوں اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے پھر بھی وہ اپنے دامن کو نہیں ہٹائیں گے اور دشمن کو نہیں دکھائیں گے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۲۹۱۔۔۔]


جناب ابوالقاسم حسین بن روح تقریبا ۲۱ سال تک نیابت کے درجہ پر فائز رہے۔ انہوں نے وفات سے قبل نیابت کے امور کو امام عج کے حکم سے علی بن محمد سمری کے سپرد کیا اور شعبان سنہ ۳۲۶ ھ میں وفات پاگئے۔ ان کی قبر بغداد میں ہے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۸۷۔۳۹۳۔۔۔]


نائب چہارم ابوالحسن سمری ہیں جنہیں حضرت صاحب الزمان عج کے حکم سے حسین بن روح کے بعد نیابت کے امور سپرد کئے گئے۔ علمائے رجال کے قول کے مطابق موصوف کی عظمت و جلالت کسی توصیف کی محتاج نہیں۔ ابوالحسن سمری نے ایک دن بعض بزرگوں کے مجمع میں فرمایا: خدا علی بن بابویہ کی مصیبت میں آپ کو اجر دے، وہ اس وقت وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان لوگوں نے وقت، دن اور مہینہ کو محفوظ کرلیا اور ۱۷ یا ۱۸ دن بعد خبر ملی کہ اسی وقت میں علی ابن بابویہ قمی دنیا سے گئے تھے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۹۶۔۔۔]


← غیبت صغریٰ کا اختتام


علی بن محمد سمری کی وفات سے قبل شیعوں میں سے بعض افراد ان کے پاس آئے اور پوچھا: آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہوگا؟ جواب دیا: مجھے اس بات کا حکم نہیں ہے کہ اس بارے میں کسی کو کچھ کہوں۔ [بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۰] اس کے بعد ایک توقیع جو امام سے صادر ہوئی تھی شیعوں کو دکھائی۔


انہوں اس توقیع کی نسخہ نویسی کی جس کا مضمون یوں تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، اے علی بن محمد سمری، خدا تمہاری مصیبت پر تمہارے بھائیوں کو اجر عظیم دے۔ اگلے چھ دن میں تم دنیا سے جانے والے ہو، لہذا اپنے کو آمادہ کرلو اور کسی کو وصیت نہ کرنا کہ وہ تمہارے بعد تمہارا جانشین ہو۔ غیبت کبری کا اغاز ہوگیا ہے اور اب ظہور نہیں ہوگا یہاں تک کہ حکم خداوندی آجائے، جو ایک طولانی مدّت، دلوں کے سخت ہوجانے اور زمیں کے ستم سے بھر جانے کے بعد ہوگا۔ عنقریب کچھ لوگ ہمارے شیعوں کے درمیان میری زیارت کا دعوی کریں گے۔ معلوم رہے کہ جو بھی خروج سفیانی اور ندائے آسمانی سے پہلے ایسا دعوی کرے (یعنی سفیر اور نائب کے عنوان سے زیارت کا دعوی کرے) وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے ولاحول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ [بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۱۔۔۔]


چھٹے دن جو نیمہ شعبان سنہ ۳۲۹ کی تاریخ تھی جناب ابوالحسن سمری کی وفات ہوگئی، نہر ابوعتاب کے کنارے خلنجی روڈ، بغداد میں دفن ہوئے۔ [الغیبۃ، (شیخ طوسی)، ص۳۹۶۔۔۔]


علامہ مجلسی احتجاج طبرسی سے نقل فرماتے ہیں: امام عصر عج کے نائبین خاص میں سے کسی نے بھی امام عج کی جانب سے حکم صریح سے پہلے اور گذشتہ نائب کی جانب سے پیش کیے جانے سے قبل خود کو نائب کے عنوان سے پیش نہیں کیا۔ شیعوں نے بھی کسی کی بات قبول نہ کی مگر یہ کہ امام عصر عج کی جانب سے کوئی علامت اور نشانی مل جائے جو اس کی گفتار کی صداقت اور نیابت پر دلالت کررہی ہو۔ [احتجاج، ج۲، ص۲۹۷۔۔۔]


← زمانۂ غیبت کبری میں ہماری ذمہ داریاں


عصر غیبت میں امام عج کے محبّوں اور شیعوں کی بعض ذمہ داریاں مندرجہ ذیل ہیں:


۱. روز جمعه، عید فطر، عید قربان، عید غدیر میں دعائے ندبہ کی تلاوت۔


۲. جمعہ کے دن امام عج کی زیارت۔


۳. اعتقاد میں ثابت قدم اور مستحکم رہنے کے لئے اس دعا کی تلاوت:


« یا اللهُ، یا رَحمنُ، یا رَحیمُ، یا مُقَلَّبَ القُلُوبِ، ثَبَّت قَلبی عَلی دینِکَ ». [کمال الدین، ص۳۵۲۔۔۔]

۴. جب نام" قائم" لیا جائے تو احترام میں اٹھ کھڑے ہونا۔


۵. مشکلات اور گرفتاریوں میں امام عج سے توسّل۔


۶. امام عصر عج کے ظہور میں تعجیل اور سلامتی کے لئے صدقہ دینا۔


۷. اس دعا کی تلاوت، جس میں ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا ہمیں امام ع کی معرفت عطا کرے:


« اللّهُمَّ عَرَّفنی نَفسَکَ فَاِنَّکَ اِن لَم تُعَرَّفنی نَفسَکَ لَم اَعرِف نَبِیَّکَ، اللّهُمَّ عَرَّفنی رَسُولَکَ فَاِنَّکَ اِن لَم تُعَرَّفنی رَسُولَکَ لَم اَعرِف حُجَّتَکَ، اللّهُمَّ عَرَّفنی حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِن لَم تُعَرَّفنی حُجَّتَکَ ضَلَلتُ عَن دینی »۔ [الکافی، ج۱، ص۳۳۷۔۔۔]


۸. امام عج سے منسوب مجالس میں شرکت، خاص کر ان کے جدّ بزرگوار حضرت سید الشھداء کی مجالس عزا میں۔


۹. امام عج کے لئے اعمال صالح ہدیہ کرنا، جیسے زیارت قبور ائمہ ع، قرائت قرآن و حجّ و عُمره و طواف.


۱۰. گناہوں سے حقیقی توبہ۔


۱۱. لوگوں کو امام عج کی جانب متوجہ کرنا


#وفات_علی_بن_محمد_سمری_نائب_امام_عصر_عجل_اللہ_فرجہ_الشریف


اس روز سنہ ۳۲۹ھ میں شیخ الجلیل، نائب خاص حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف جناب علی بن محمد سمری کی وفات واقع ہوئی جو غیبت صغریٰ کے اختتام اور غیبت کبریٰ کے آغاز کے معنی میں ہے، کیونکہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ فرجہ الشریف نے انہیں حکم فرمایا تھا کہ کسی کو اپنا وصی و جانشین قرار نہ دینا کیونکہ غیبت کبریٰ کا آغاز ہوگیا ہے۔ [الغیبۃ (شیخ طوسی)، ص۳۹۴؛ کمال الدین، ص۵۰۳...]


📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۵/ شعبان، ص۲۴۱۔



https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor