علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 27 فروری، 2022

یوم وفات حضرت ابوطالب علیہ السلام



 ۲۶/رجب المرجب


#وفات_حضرت_ابوطالب_علیہ_السلام


سید بطحاء حضرت ابو طالب ع نے ہجرت سے تین سال قبل اور بعثت کے دسویں سال وفات پائی۔ [مصباح المتہجد، ص۷۴۹؛ منتخب التواریخ، ص۴۳؛ بحار الانوار، ج۱۹، ص۲۵۔۲۴۔۔۔] روایت کے مطابق رحلت کے وقت آپ ع کی عمر ۸۰ سال سے زیادہ کی تھی۔ [منتخب التواریخ، ص۴۳،۱۱۴۔۔۔]


حضرت ابو طالب ع کی رحلت کے بارے میں دیگر اقوال: ۲۷ جمادی الاولی، ۲۹ رجب، ۷ اور ۱۸ رمضان، ۱۵ اور ۱۷ شوال، ۱ اور ۱۰ ذی القعدہ، ۱ ذی الحجۃ ہیں۔ [منتخب التواریخ، ص۴۳؛ شرح احقاق الحق، ج۲۹ ص۶۱۴؛ اسد الغابۃ، ج۱، ص۱۹۔۔۔]


← نسب حضرت ابو طالب علیہ السلام:


آپ ع کا اسم مبارک عمران ہے، والد گرامی جناب عبد المطلب، اور والدہ ماجدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ ہیں۔ حضرت ابو طالب ع پیغمبر ص کے والد جناب عبد اللہ اور زبیر بن عبد المطلب کے ابوینی بھائی تھے، یعنی ماں اور باپ دونوں طرف سے ایک تھے، اور جناب عبد المطلب کے دیگر بیٹے فقط باپ کی طرف سے ان تینوں بزرگوار کے بھائی تھے۔ [بحار الانوار، ج۳۵، ص۱۳۸، ۱۸۲؛ عمدۃ المطالب، ص۲۱، ۲۳]


← ایمان حضرت ابو طالب علیہ السلام:


علامہ مجلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جناب ابوطالب ع اسلام اور پیغبر ص پر ایمان لانے والے تھے، اور انہوں نے کبھی بھی کسی بت کی عبادت نہیں کی، بلکہ ابو طالب ع حضرت ابراہیم ع کے اوصیاء میں سے ایک ہیں اور آپ ع کا اسلام و ایمان شیعوں میں مشہور و معروف ہے اور علمائے شیعہ نے آپ ع کے ایمان پر کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔


جناب صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: احادیث میں آیا ہے کہ جناب عبد المطلب حجّت خدا اور جناب ابو طالب ان کے وصی تھے۔ روایات کے مطابق امانات انبیاء، عصائے حضرت موسیٰ ع، انگشتر حضرت سلیمان ع و۔۔۔۔ جناب عبد المطلب کی جانب سے حضرت ابو طالب ع کے حوالہ کی گئیں اور آپ ع نے انہیں حضرت خاتم الانبیاء ص کے سپرد کیا۔ [الکافی، ج۱، ص۳۳۴؛ کمال الدین، ص۶۶۵؛ الغدیر، ج۷، ص۳۹۴]


ابن اثیر جزری شافعی جامع الاصول میں لکھتے ہیں: پیغمبر ص کے چچاؤں میں سے حمزہ، عباس اور ابوطالب کے سوا کوئی ایمان نہیں لایا تھا۔


علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں: اہل بیت ع ایمان ابوطالب ع پر اجماع رکھتے ہیں اور اجماع اہل بیت ع حجت ہے؛ کیونکہ وہ بزرگوار ثقلین میں سے ایک ہیں جن سے پیغبر ص نے تمسک کا حکم دیا ہے۔ [تفسیر مجمع البیان، ج۴، ص۳۱؛ الغدیر، ج۷، ص۳۸۵]


ایمان حضرت ابوطالب ع پر بہت سی کتابیں تحریر کی گئی ہیں جس میں سب سے پہلی کتاب ۶۳۰ ھ میں لکھی گئی۔ اس وقت سے اب تک آپ ع کی عظمت، جلالت، ایمان پر مختلف زبانوں میں کتابیں تالیف ہوئیں اور طبع ہوکر منظر عام پر آئیں جو اہل تحقیق و نظر پر مخفی نہیں ہے۔ [الغدیر، ج۷، ص۳۰۹۔۳۳۰۔۔۔]


حضرت امام رضا ع عبد العظیم حسنی کے جواب میں فرماتے ہیں: اگر تم ایمان ابو طالب ع میں شک کروگے تو تمہارا راستہ جہنم ہوگا۔ [الغدیر، ج۷، ص۳۹۵؛ ایمان ابی طالب ع (علامہ امینی) ص۹۰]


نبی اکرم ص کی حمایت میں حضرت ابو طالب کے اشعار، آپ ع کی رحلت کے وقت حضرت امیر المومنین ع سے منسوب اشعار اور قریش کی جانب سے حضرت نبی مکّرم پر کاروائی کے وقت مسجد الحرام میں قریش سے خطاب میں آپ ع کی گفتگو، اور رحلت کے وقت نبی اکرم ص کے کلمات، طلب باران کے وقت آپ ع کے جملات سب اس بات پر دلیل ہیں کہ آپ ع لاثانی ایمان کے حامل تھے جس کی تشبیہ روایات میں ایمان اصحاب کہف سے دی گئی ہے۔ آپ ع کے مرثیہ میں حضرت امیر المومنین ع کے چند اشعار آپ ع کی جناب حمزہ پر فوقیت کی نشاندہی کررہے ہیں۔


اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: حضرت امیر المومنین ع نے فرمایا: واللہ ہمارے والد اور جدّ عبد المطلب اور ہاشم و عبد مناف نے کبھی بھی بتوں کی عبادت نہیں کی۔ سوال ہوا: پھر کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ فرمایا: کعبہ کی سمت نماز پڑھا کرتے تھے دین ابراہیمی پر تھے اور اس سے متمسک تھے۔ [کمال الدین، ص۱۷۵؛ الغدیر، ج۷، ص۳۸۷]


ابن ابی الحدید اشعار کے ضمن میں کہتے ہیں: اگر ابوطالب اور ان کے فرزند نہ ہوتے تو اس دین کا نام و نشان نہ ہوتا جو اس طرح برپا ہے، ابوطالب ع نے مکہ میں پیغمبر ص کی حمایت کی اور ان کے فرزند نے مدینہ میں پیغمبر ص کی بے دریغ نصرت کی۔ [شرح نھج البلاغہ، (ابن ابی الحدید) ج۱۴، ص۸۴۔۷۰]


← پیغبر صلّی اللہ علیہ و آلہ وفات ابوطالب ع پر:


جس وقت حضرت امیر المومنین ع نے جناب ابوطالب ع کی خبر غم نبی اکرم ص کو سنائی۔ آنحضرت ص بہت زیادہ محزون ہوئے اور فرمایا: یا علی! جاؤ انہیں غسل و حنوط و کفن کرو اور جب انہیں تخت پر رکھ دینا تو مجھے خبر کرنا۔ جب آپ ع نے پیغمبر ص کے حکم کو انجام دے لیا اور تخت پر رکھ دیا، تو نبی اکرم ص تشریف لائے، اور جب نظر چچا کے جنازے پر پڑی آپ ص پر رقّت طاری ہوگئی اور فرمایا: اے عمو، آپ نے صلۂ رحم انجام دیا، احسان کیا اور جزائے خیر دی۔ اے عمو، آپ نے میرے بچپنے میں میری کفالت کی اور بڑے ہونے پر میری نصرت اور حمایت کی۔ [بحار الانوار۔ ج۲۲، ص۲۶۱؛ ج۳۵، ص۱۲۵؛ ابو طالب حامی الرسول، ص۱۲۹۔۔۔]


حضرت ابو طالب ع کی وفات پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور نبی اکرم ص سے فرمایا: آپ کا حامی اب دنیا سے جا چکا ہے، اب ہجرت کر جائیں۔ [الکافی، ج۱، ص۴۴۰، ۴۴۹؛ شرح نھج البلاغہ، ج۴، ص۷۰؛ ج۱۴، ص۱۲۸]


امام باقر ع فرماتے ہیں: اگر حضرت ابو طالب ع کا ایمان ترازو کے ایک طرف رکھا جائے اور دوسری جانب تمام لوگوں کا ایمان ہو تو یقینا ایمان ابو طالب ع سب پر بھاری ہوگا۔ پھر فرمایا: کیا نہیں جانتے کہ حضرت امیر المومنین ع اپنی حیات میں حج کے لئے عبد اللہ، آمنہ اور ابو طالب کی جانب سے نائب قرار دیتے تھے، اور شہادت پر اپنی اولاد سے وصیت کی کہ ان بزرگوں کی جانب سے حج کے لئے نائب بنائیں۔ [الغدیر، ج۷، ص۳۸۰؛ الصحیح من السیرہ، ج۳، ص۲۴۲]


حضرت امام صادق ع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین ع صحن مسجد میں تشریف فرما تھے لوگوں کو مجمع تھا؛ تبھی ایک شخص نے کھڑے ہوکر سوال کیا: اے امیر المومنیین! آپ کو خدا نے یہ مقام عطا کیا ہے لیکن آپ کے والد آتش دوزخ میں!


امام ع نے فرمایا: رک جا! خدا تیرا منھ توڑے، اس خدا کی قسم جس نے محمد ص کو نبی برحق بنا کے بھیجا! اگر میرے والد روئے زمیں پر موجود تمام گنہگاروں کی شفاعت کریں تو خدا اس کی شفاعت کو قبول کرے گا، کیا میرے والد آتش دوزخ میں ہوں اور میں ان کا بیٹا ہوتے ہوئے جنّت و جہنم کا تقسیم کرنے والا رہوں!


اس خدا کی قسم جس نے محمد کو مبعوث برسالت کیا! روز قیامت نور ابوطالب تمام مخلوقات پر چھایا ہوگا سوائے پانچ نور کے: محمد ص کا نور، میرا نور، فاطمہ س کا نور، حسن کا نور، حسین ع اور انکے فرزندوں میں ائمہ کا نور۔ معلوم رہے! ابو طالب کا نور ہمارے نور سے ہے، جسے خدا نے حضرت آدم ع سے دو ہزار قبل خلق کیا تھا۔ [مأۃ منقبہ، ص۱۷۴؛ کنز الفوائد، ص۸۰؛ احتجاج، ج۱، ص۳۴۱؛ الغدیر، ج۷، ص۳۸۷]


https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor