#ولادت_حضرت_باقر_العلوم_ع
✍🏼امام پنجم حضرت محمد بن علی علیہما السلام نے روز جمعہ بتاریخ 1/رجب المرجب 57ھ مدینہ منورہ میں دنیا میں آنکھ کھولی، [1] آپ(ع) کا نام نامی محمد رکھا گیا، ابوجعفر کنیت اور باقر العلوم آپکا لقب قرار پایا۔
حضرت امام باقر ع ماں اور باپ دونوں طرف سے حضرت علی، حضرت زہرا اور پیغمبر اکرم ع سے نسبت رکھتے ہیں، اس لئے کہ آپ ع کے والد حضرت سید الشہداء ع کے فرزند حضرت زین العابدین ع تھے تو ماں امام حسن ع کی لخت جگر جناب ام عبد اللّہ [2] تھیں۔
حضرت امام باقر ع کی عظمت زبانزد خاص و عام تھی، جہاں کہیں بھی ہاشمی، علوی، اور فاطمیوں کے مرتبے کی بات ہوتی، تو آپ کو عظمت، شجاعت اور قداست کے اکیلے وارث کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا۔
عظمت و جلالت🌷🌷
← حضرت رسول خدا ص نے اپنے جلیل القدر صحابی جناب جابر سے فرمایا: اے جابر! تم ابھی زندہ رہوگے یہاں تک کہ میرے بیٹے محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ع سے ملاقات کروگے، جن کا نام توریت میں باقر ہے، جب ان سے ملاقات کرنا تو میرا سلام کہنا۔
ایک دن وہ امام زین العابدین ع کے گھر تشریف لائے، اور امام باقر ع کی زیارت کی جو ابھی کمسن تھے، جناب جابر نے آپ ع سے کہا: میری طرف آئیے، امام آگئے، دوبارہ کہا: واپس جائیے، امام واپس جانے لگے۔ جناب جابر نے کہا: رب کعبہ کی قسم آپ پورے طور سے نبی ص کے ہوبہو ہیں۔
امام سجاد ع سے پوچھا: یہ کس کے صاحب زادے ہیں؟ فرمایا: یہ میرے بعد کا امام، میرا فرزند (محمد باقر) ہے۔ جناب جابر کھڑے ہوگئے اور امام باقر ع کے قدموں کا بوسہ لیا اور کہا: یابن رسول اللہ میری جان آپ پر قربان، اپنے بابا رسول خدا(ص) کا سلام و درود قبول فرمائیے، جو انہوں نے آپ کے لئے بھیجا ہے۔
امام باقر ع کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں، فرمایا: جب تک زمین و آسمان قائم ہیں میرے بابا رسول خدا (ص) پر سلام و درود ہو، اور آپ پر بھی اے جابر کہ آپ نے ان کا سلام مجھ تک پہونچایا [3] ۔
علمی منزلت🌷🌷
← حضرت امام باقر ع بھی دیگر ائمہ کی طرح سرچشمۂ وحی سے متّصل تھے، آپ (ع) کا نہ کوئی استاد تھا اور نہ ہی کسی بشر کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا، ہاں! جابر امام ع کی بارگاہ میں حاضر ہوا کرتے اور علم حاصل کیا کرتے تھے، فرماتے تھے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو بچپنے میں علم الہی عطا کیا گیا۔
عبد اللہ بن عطاء کہتے ہیں: میں نے ہرگز کسی کو اتنا زیادہ متواضع اور چھوٹا نہیں پایا جتنا حکم بن عتیبہ امام باقر ع کے سامنے ہوتے تھے جبکہ وہ خود لوگوں کے درمیان عظیم علمی منزلت رکھتے تھے، لیکن وہ امام(ع) کے سامنے معلّم کے حضور ایک بچے کی صورت تھے [4] ۔
آپ(ع) کی منزلت اور علمی جلالت کا یہ عالم تھا کہ جابر بن یزید جعفی روایت اخذ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: وصی الاوصیاء وارث علوم الانبیاء نے فرمایا۔۔۔[5]
کسی نے عبد اللہ عمر سے مسئلہ پوچھا، وہ جواب نہ سکے، اشارہ کیا کہ اس بچے سے پوچھ لو اور مجھے بھی بتا دینا، اس شخص نے امام ع سے سوال کیا اور اطمینان بخش جواب لیکر واپس لوٹا اور عبد اللہ عمر کو بھی بتایا۔ عبد اللہ نے کہا: بیشک ان کا تعلق خاندان علم سے ہے [6] ۔
ابو بصیر کہتے ہیں: میں امام باقر ع کے ساتھ مدینہ میں آیا، لوگوں کی رفت و آمد جاری تھی، امام (ع) نے مجھ سے فرمایا: لوگوں سے پوچھو کیا وہ مجھے دیکھ رہے ہیں؟ میں نے جس سے بھی پوچھا کہ کیا ابوجعفر کو دیکھا ہے، جواب، نہ میں ملا، جبکہ امام میرے پاس ہی کھڑے تھے۔ اسی اثناء میں ابو ہارون مکفوف مسجد میں وارد ہوئے۔ امام(ع) نے فرمایا: اس سے بھی پوچھو۔ میں نے وہی سوال ابوہارون سے کیا۔ فورا جواب دیا: کیا تمھارے بغل میں نہیں کھڑے ہیں؟ میں نے کہا: تم کو کیسے معلوم؟ جواب دیا: مجھے کیسے معلوم نہ ہوں جبکہ وہ درخشاں نور ہیں؛ امام نے اس سے ایک افریقی شخص کا حال دریافت کیا، اس نے کہا: جب میں وہاں سے چلا تھا تو وہ اچھی حالت میں تھے اور آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے، آپ (ع) نے فرمایا: اب وہ دنیا سے جا چکا ہے، اس نے کہا کب اور کیسے؟ جواب دیا: تمہارے وہاں سے نکلنے کے دو دن بعد[7] ۔
اخلاقی عظمت🌷🌷
← شام کا ایک شخص مدینہ میں رہتا تھا، امام(ع) کی خدمت میں کثرت سے آیا جایا کرتا تھا، اور کہتا تھا: اے محمد یہ گمان نہ ہو کہ میں شرم و حیا کی بنا پر مجلس میں آتا ہوں، میں نہیں سمجھتا کہ تم سے بڑا بھی کوئی روئے زمیں پر میرا دشمن ہوگا! میرا عقیدہ ہے کہ تمہاری دشمنی میں ہی خدا، نبی اور امیر المومنین کی اطاعت ہے، اگر دیکھتے ہو کہ میں تمہارے گھر بہت زیادہ رفت و آمد رکھتا ہوں وہ اس لئے ہے کیونکہ تم بہترین، ادیب، خوش بیاں اور خطیب ہو!
پھر بھی امام اس سے نرم لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔۔۔۔ کچھ عرصہ بعد وہ بیمار ہوگیا، اور موت اس کی آنکھوں کے سامنے آگئی اور وہ زندگی سے ناامید ہوگیا؛ اس نے وصیت کی کہ اگر وہ مر جائے تو کفن دیکر ابو جعفر ع کے پاس لے جائیں اور نماز کی درخواست کریں۔
آدھی رات گذری، رشتہ داروں نے اس کے مرنے کا یقین کرلیا، صبح اس کا ولی مسجد آیا اور امام باقر ع کو دیکھا کہ نماز صبح کے بعد ذکر و تعقیبات میں مشغول ہیں۔۔۔۔ عرض کیا: وہ شامی شخص دیار ابدی کی طرف چل بسا اور اس کی وصیت ہے کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں۔ امام (ع) نے فرمایا: نہ ایسا نہیں ہے، سرزمین شام سرد ہے اور حجاز گرم، اور گرمی اس کے لئے سخت ہے، جلدی مت کرو، میں آتا ہوں۔
آپ (ع) اٹھے، تجدید وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی، دست دعا بلند کئے پھر سجدے میں گئے، اور سورج کے طلوع ہونے تک سجدے میں رہے، اس کے بعد اس شامی کے یہاں گئے اور اس کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور اسے آواز دی، اس نے جواب دیا، آپ نے اسے سہارا دیا اور اور دیوار کا تکیہ لیکر بیٹھ گیا؛ امام نے ستّو منگایا اور اسے دیا، اور رشتہ داروں سے کہا کہ کھانا کھلائیں اور ٹھنڈی غذا دیں، اور واپس آگئے۔ اسے بہت جلد شفا مل گئی اور وہ امام کی خدمت میں پہونچ کر کہتا ہے: " میں گواہی دیتا ہوں آپ لوگوں پر حجت خدا ہیں اور باب ہیں جس سے وارد ہوا جاتا ہے جو آپ کے علاوہ کسی اور دروازے سے جائے تو گمراہ رہے گا۔۔۔[8]
محمد بن منکدر کہتے ہیں: گرمیوں کے ایک دن میں مدینہ سے باہر گیا، ابوجعفر (ع) کو دیکھا جو اپنے دو غلاموں یا دو اصحاب کے سہارے واپس آرہے ہیں، میں نے خود سے کہا: اتنی گرمی میں خاندان اہل بیت ع کا ایک شخص طلب دنیا میں لگا ہوا ہے! اسے ابھی نصیحت کرتا ہوں۔
میں قریب گیا اور انہیں سلام کیا، امام (ع) کے سر اور چہرے سے پسینہ ٹپک رہا تھا، انھوں نے ٹوٹتی ہوئی سانس میں سلام کا جواب دیا۔ میں نے کہا: خدا آپ کو سلامت رکھے کیا آپ جیسی قریش کی عظیم شخصیت کو یہ زیبا ہے کہ اس وقت اور اس عالم میں دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، اگر اس عالم میں موت آجائے کیا کریں گے؟
امام (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم اگر موت آجائے تو خدا کی طاعت میں جاؤں گا گا کیونکہ میں نے اس طرح سے تم اور تم جیسے لوگوں سے خود کو بے نیاز بنایا ہے، موت سے خوف اس وقت ہوتا جب میں گناہ کررہا ہوتا۔ میں نے کہا: آپ پر خدا کی رحمت ہو، میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو نصیحت کرونگا، آپ نے مجھے نصیحت کرڈالی۔ [9] ۔
🌷🌷ایک مناظرہ
← عبد اللّہ بن نافع کہا کرتا تھا: اگر روئے زمیں پر کوئی مجھے قانع کردے کہ خوارج سے جنگ میں علی (ع) ان پر ظلم نہیں کیا تو میں اس کی طرف جاؤنگا۔
کہا گیا: اگرچہ اولاد علی (ع) میں سے کوئی ہو؟
اس نے کہا: کیا ان کے بیٹوں میں کوئی عالم بھی ہے؟
کہتے ہیں: یہی تو تیری نادانی کی پہلی واضح دلیل ہے! کیا ممکن ہے علی ع کی اولاد میں کوئی عالم نہ ہو؟!
اس نے پوچھا: آج کل کون ہے، لوگوں نے امام باقر ع کا نام لیا۔
وہ مدینہ آیا اور امام سے ملاقات کی درخواست کی۔۔۔۔ امام نے غلام کو حکم دیا کہ اس سے کہو کہ کل یہاں آئے۔
دوسرے دن عبد اللّہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مجلس میں آیا، امام باقر ع بھی اپنے بیٹوں، بعض مہاجرین و انصار کو جمع کیا، آپ (ع) نے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا: اے فرزندان مہاجرین و انصار! تمہارے ذہنوں میں جو علی بن ابی طالب (ع) کی فضیلت ہے بیان کرو۔
لوگوں نے بیان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ حدیث خیبر تک بات پہونچی، کہ پیغمبر اکرم ص نے فرمایا: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ كَرَّاراً غَيْرَ فَرَّارٍ لَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَى يَدَيْه
کل میں پرچم اس کو دونگا جو خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے، اور خدا و رسول بھی اس کو دوست رکھتے ہیں، جو کرار و غیر فرّار ہے، وہ اس وقت تک میدان جنگ سے واپس نہیں آئے گا یہاں تک کہ خدا اس کے ہاتھوں سے یہودیوں پر فتح دلائے گا۔
اور پھر دوسرے دن پرچم کو امیر المومنین ع کے حوالے کردیا، اور انہوں حیران کن جنگ میں یہودیوں کو پسپا کردیا اور انکے عظیم قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔
امام باقر ع نے عبد اللّہ بن نافع سے فرمایا: اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
اس نے کہا حدیث تو صحیح ہے، لیکن بعد میں کافر ہوگئے تھے اور انہوں نے خوارج کو ناحق قتل کیا!
امام (ع) نے فرمایا: تیری ماں ترے ماتم میں بیٹھے، جب خدا انہیں دوست رکھتا تھا وہ جانتا تھا کہ علی (ع) خوارج کا قتل کریں گے یا نہیں جانتا تھا؟ اگر کہتے ہو خدا نہیں جانتا تھا کافر ہوجاؤگے۔
اس نے کہا: خدا جانتا تھا۔
امام(ع): خدا انہیں اس لئے دوست رکھتا تھا کہ وہ فرمانبردار اور اطاعت گزار تھے یا ان کی نافرمانی اور گناہ کی بنا پر؟
اس نے کہا: کیوں کہ خدا کے فرمانبردار تھے اس لئے۔
فرمایا: اٹھ جاؤ کہ ہار چکے ہو، اب کوئی جواب تمہارے پاس نہیں۔
عبد اللّہ اٹھا جبکہ اس آیت کی تلاوت کررہا تھا: حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر
اس کا اشارہ یہ تھا کہ حق سفیدی صبح کی طرح آشکار ہو گیا۔ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَه اور کہا: خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں رکھے [10]۔
📚📚حوالے:
(1) مصباح المتهجد، ج2، ص801، أول يوم من رجب؛ المصباح للكفعمي (جنة الأمان الواقية)، ص512، رجب
(2) مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج4، ص 208، فصل في معالي أموره ع
(3) الأمالي( للصدوق)، ص353، ح9، المجلس السادس و الخمسون
(4) الإرشاد، ج2، ص160، فصل في ذكر فضائل الإمام الباقر ع؛ إعلام الورى (ط - القديمة)، ص269، الفصل الرابع في ذكر۔۔
(5) الإرشاد، ج2، ص160، فصل في ذكر فضائل الإمام الباقر ع؛ تاج المواليد، ص91، الفصل الثاني: في بعض مناقبه
(6) مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج4، ص197
(7) الخرائج و الجرائح، راوندى، ج2، ص595، فصل في أعلام الإمام محمد بن علي بن الحسين الباقر ع
(8) الأمالي (للطوسي)، ص410، المجلس الرابع عشر؛ إثبات الهداة، شيخ حر عاملى، ج4، ص103، الفصل الرابع
(9) الإرشاد، شیخ مفید، ج2، ص161، فصل في ذكر فضائل الإمام الباقر ع، إعلام الورى (ط - القديمة)، طبرسى، ص269، الفصل الرابع في ذكر طرف من مناقبه
(10) الكافي (ط - الإسلامية)، كلينى، ج8، ص349، حديث إسلام علي ع۔
https://www.facebook.com/klmnoor