
صحابی رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ مجاہد صدر اسلام جناب جابر بن عبد اللہ انصاری علیہ الرحمۃ و الرضوان


عنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِ زَائِرَيْنِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَلَمَّا وَرَدْنَا كَرْبَلَاءَ دَنَا جَابِرٌ مِنْ شَاطِئِ الْفُرَاتِ فَاغْتَسَلَ ثُمَ اتَّزَرَ بِإِزَارٍ وَ ارْتَدَى بِآخَرَ ثُمَ فَتَحَ صُرَّةً فِيهَا سُعْدٌ فَنَثَرَهَا عَلَى بَدَنِهِ ثُمَّ لَمْ يَخْطُ خُطْوَةً إِلَّا ذَكَرَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى إِذَا دَنَا مِنَ الْقَبْرِ قَالَ أَلْمِسْنِيهِ فَأَلْمَسْتُهُ فَخَرَّ عَلَى الْقَبْرِ مَغْشِيّاً عَلَيْهِ فَرَشَشْتُ عَلَيْهِ شَيْئاً مِنَ الْمَاءِ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ يَا حُسَيْنُ ثَلَاثاً ثُمَّ قَالَ حَبِيبٌ لَا يُجِيبُ حَبِيبَهُ ثُمَّ قَالَ وَ أَنَّى لَكَ بِالْجَوَابِ وَ قَدْ شُحِطَتْ أَوْدَاجُكَ عَلَى أَثْبَاجِكَ وَ فُرِّقَ بَيْنَ بَدَنِكَ وَ رَأْسِكَ فَأَشْهَدُ أَنَّكَ ابْنُ خَاتِمِ النَّبِيِّينَ وَ ابْنُ سَيِّدِ الْمُؤْمِنِينَ وَ ابْنُ حَلِيفِ التَّقْوَى وَ سَلِيلُ الْهُدَى وَ خَامِسُ أَصْحَابِ الْكِسَاءِ وَ ابْنُ سَيِّدِ النُّقَبَاءِ وَ ابْنُ فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ وَ مَا لَكَ لَا تَكُونُ هَكَذَا وَ قَدْ غَذَّتْكَ كَفُّ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَ رُبِّيتَ فِي حَجْرِ الْمُتَّقِينَ وَ رَضَعْتَ مِنْ ثَدْيِ الْإِيمَانِ وَ فُطِمْتَ بِالْإِسْلَامِ فَطِبْتَ حَيّاً وَ طِبْتَ مَيِّتاً غَيْرَ أَنَّ قُلُوبَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ طَيِّبَةٍ لِفِرَاقِكَ وَ لَا شَاكَّةٍ فِي الْخِيَرَةِ لَكَ فَعَلَيْكَ سَلَامُ اللَّهِ وَ رِضْوَانُهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ مَضَيْتَ عَلَى مَا مَضَى عَلَيْهِ أَخُوكَ يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا ثُمَّ جَالَ بَصَرَهُ حَوْلَ الْقَبْرِ وَ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَيَّتُهَا الْأَرْوَاحُ الَّتِي حَلَّتْ بِفِنَاءِ الْحُسَيْنِ وَ أَنَاخَتْ بِرَحْلِهِ وَ أَشْهَدُ أَنَّكُمْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَ آتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَ أَمَرْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَيْتُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ جَاهَدْتُمُ الْمُلْحِدِينَ وَ عَبَدْتُمُ اللَّهَ حَتَّى أَتَاكُمُ الْيَقِينُ وَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ نَبِيّاً لَقَدْ شَارَكْنَاكُمْ فِيمَا دَخَلْتُمْ فِيهِ قَالَ عَطِيَّةُ فَقُلْتُ لَهُ يَا جَابِرُ كَيْفَ وَ لَمْ نَهْبِطْ وَادِياً وَ لَمْ نَعْلُ جَبَلًا وَ لَمْ نَضْرِبْ بِسَيْفٍ وَ الْقَوْمُ قَدْ فُرِّقَ بَيْنَ رُءُوسِهِمْ وَ أَبْدَانِهِمْ وَ أُوتِمَتْ أَوْلَادُهُمْ وَ أَرْمَلَتْ أَزْوَاجُهُمْ؟ فَقَالَ يَا عَطِيَّةُ سَمِعْتُ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ مَنْ أَحَبَّ قَوْماً حُشِرَ مَعَهُمْ وَ مَنْ أَحَبَّ عَمَلَ قَوْمٍ أُشْرِكَ فِي عَمَلِهِمْ وَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ نَبِيّاً أَنَّ نِيَّتِي وَ نِيَّةَ أَصْحَابِي عَلَى مَا مَضَى عَلَيْهِ الْحُسَيْنُ ع وَ أَصْحَابُهُ خُذْنِي نَحْوَ إلى أَبْيَاتِ كُوفَانَ فَلَمَّا صِرْنَا فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ قَالَ يَا عَطِيَّةَ هَلْ أُوصِيكَ وَ مَا أَظُنُّ أَنَّنِي بَعْدَ هَذِهِ السَّفْرَةِ مُلَاقِيكَ أَحْبِبْ مُحِبَّ آلِ مُحَمَّدٍ ص مَا أَحَبَّهُمْ وَ أَبْغِضْ مُبْغِضَ آلِ مُحَمَّدٍ مَا أَبْغَضَهُمْ وَ إِنْ كَانَ صَوَّاماً قَوَّاماً وَ ارْفُقْ بِمُحِبِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ فَإِنَّهُ إِنْ تَزِلَّ لَهُ قَدَمٌ بِكَثْرَةِ ذُنُوبِهِ ثَبَتَتْ لَهُ أُخْرَى بِمَحَبَّتِهِمْ فَإِنَّ مُحِبَّهُمْ يَعُودُ إِلَى الْجَنَّةِ وَ مُبْغِضَهُمْ يَعُودُ إِلَى النَّارِ۔

صحابی رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ مجاہد صدر اسلام جناب جابر بن عبد اللہ انصاری علیہ الرحمہ و الرضوان


عطیہ عوفی کہتے ہیں:

ہم جابر بن عبداللہ کے ساتھ زیارت امام حسین علیہ کی غرض سے نکلے، جب کربلا پہونچے، جابر فرات کی طرف گئے اور غسل کیا ایک کپڑا کمر میں باندھا اور دوسرا شانہ پر ڈالا اور خود کو معطر کیا۔ پھر ذکر خدا کرتے ہوئے قدموں کو آگے بڑھایا، یہاں تک کہ قبر مبارک تک پہونچے، کہا: میرے ہاتھ کو قبر سے مس کردو، میں نے ان کے ہاتھ کو قبر پر رکھا، جابر نے خود کو قبر پر گرادیا اور (اتنا زیادہ گریہ کیا) کہ بے ہوش ہوگئے، میں نے ان پر پانی چھڑکا تو انہیں غش سے افاقہ ہوا، انہوں نے تین بار کہا: یاحسین! پھر کہا کیا دوست اپنے دوست کو جواب نہیں دیگا؟! اور کیسے جواب دیں گے جب کہ آپ کی گردن کی رگوں کو کاٹ ڈالاگیا اور سر کو تن سے جدا کردیا گیا۔
میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ خاتم النبیین کے فرزند، سید الوصیین کے دلبند نسل ہدایت، ہم پیمان تقوی، خامس اصحاب کساء ہیں۔
فرزند سید نقیبان ہیں، دلبند سیدۃ النساء حضرت فاطمہ س ہیں اور کیوں ایسے نہ ہوں، کہ سید المرسلین نے خود اپنے ہاتھوں سے آپ کو کھانا کھلایا، اور دامان متقین میں آپ کی پرورش ہوئی سینہ ایمان سے دودھ پیا اور دامن اسلام میں رہے، آپ نے پاک زندگی گزاری اور خوشی کے ساتھ گئے۔ لیکن مومنین کے قلوب آپ کے فراق پر غمگین ہیں، اور جو آپ پر گذری اس میں آپ کے لئے خیر کے سلسلہ میں کوئی شک نہیں؛
خدا کی خوشنودی اور سلام ہو آپ پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے وہی راستہ انتخاب کیا جس پر آپ کے بھائی یحیی بن زکریا چلے تھے۔
اسکے بعد انہوں نے قبر کے اطراف پر نظر ڈالی اور کہا:
سلام ہو آپ پر اے پاک روحیں جو امام حسین علیہ السلام سے مل گئیں، آستان حسین علیہ السلام پر وارد ہوئیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی، زکات ادا کی، نہی عن المنکر اور امر بالمعروف انجام دیا، اور ملحدوں سے جہاد کیا، اور خدا کی عبادت کی یہاں تک کہ موت کا وقت آگیا۔ اس خدا کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نبی برحق بناکر بھیجا، جس راستے پر آپ چلے ہم بھی اس میں شریک ہیں۔

عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے کہا: ہم کیسے ان کے کام میں شریک ہیں جبکہ نہ ہم نے کسی وادی کو طے کیا، نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو سر کیا، نہ ہی تلوار چلائی؛ لیکن ان کے سروں کو جدا کردیا گیا، ان کے بچے یتیم ہوگئے اور ان کی مخدرات کی مانگیں اجڑ گئیں؟
جابر نے عطیہ کو جواب دیا:
اے عطیہ! اپنے حبیب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ فرمارہے تھے: جو شخص کسی گروہ کو دوست رکھتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا اور جو شخص کسی گروہ کے عمل کو دوست رکھتا ہو وہ اس عمل میں شریک ہے۔ قسم اس خدا کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اپنا نبی بناکر بھیجا، میری اور میرے اصحاب کی نیت وہی ہے جو حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی تھی۔
مجھے کوفیوں کے گھروں کی طرف لے چلو۔ جب ہم نے کچھ راستہ طے کرلیا، مجھ سے کہا:
اے عطیہ! شاید اس سفر کے بعد تم سے ملاقات نہ کرسکوں میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے محبین کو دوست رکھنا جب تک وہ ان کی محبت پر باقی ہوں، اور خاندان محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا جب تک وہ دشمنی پر باقی رہیں اگرچہ کثیر الصوم و صلواۃ ہوں، اور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) کے دوستداروں کے ساتھ رفاقت سے پیش آنا، اگرچہ گناہوں کی وجہ سے ان کے قدم میں لغزش آگئی ہو، لیکن دوسرا قدم ان کی محبت کی وجہ سے ثابت رہے گا، اہل بیت محمد علیہم السلام کا چاہنے والا جنت کی طرف جائے گا اور ان کا دشمن دوزخ کی طرف۔

بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، عماد الدين طبرى، المكتبة الحيدرية، نجف اشرف، ص74-75

اربعین حسینی

جیسا کہ مورخین اور محققین نے تصریح کی ہے اربعین امام حسین علیہ السلام کے دن جناب جابر بن عبد اللہ انصاری عطیہ عوفی کے ساتھ کربلا آئے، فرات سے غسل کیا اور ایک خاص عالم میں قبر امام حسین علیہ السلام کی طرف گئے اور زیارت سے مشرف ہوئے۔
سید لہوف میں لکھتے ہیں: جب اہل بیت امام علیہ السلام شام سے واپس ہوئے تو عراق آئے، قافلہ سالار سے کہا: ہمیں کربلا لے چلو، جب قتلگاہ پر پہونچے تو جابر ابن عبد اللہ انصاری کو وہاں پایا جو کچھ لوگوں کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے۔
سب لوگ وہاں پہونچے اور نالہ و فغاں کیا، آنسوں بہائے، ماتم کیا۔ پڑوس کے قریوں کی عورتیں بھی اس عزا میں شامل ہوگئیں۔
اہل بیت علیہم السلام کچھ دن وہاں ٹھہرے اور عزاداری برپا کی (اس کے بعد عازم مدینہ ہوئے)۔

مجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۱۴۶
اعیان الشیعہ میں تحریر ہے کہ: جابر، سراسیمگی کے عالم میں اٹھے اور ننگے سر اور پیر کے ساتھ امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف گئے، امام نے فرمایا: جابر ہو؟ کہا: جی ہاں یابن رسول اللہ۔ امام نے فرمایا: جابر!ھھنا و اللہ قتلت رجالنا و ذبحت اطفالنا و سبیت نسائنا و حرقت خیامنا؛ اے جابر، خدا کی قسم! اسی جگہ ہمارے مردوں کو ماراگیا، بچوں کو ذبح کیا گیا اور بیبیوں کو اسیر کیا گیا اور خیام کو آگ لگائی گئی۔

محسن امین، اعیان الشیعۃ، ج۱، ص۶۱۷