۸/ ربیع الاوّل
#شہادت_امام_عسكری_علیہ_السلام
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ۸/ ربیع الأوّل سنہ ۲۶۰ ھ میں ۲۸ برس کی عمر مبارک پر معتمد عبّاسی کے ذریعہ شہادت پائی۔ [۱]
دوسرے قول کے مطابق تاریخ شہادت ۱۳/ محرّم ہے۔ [۲]
معتمد عباسی نے عباسیوں کو تاکید کر رکھی تھی کہ آپ علیہ السلام کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔ اس نے، معتز اور مہتدی نے کئی بار امام عسکری علیہ السلام کو قید کی سختیاں دیں۔ [۳]
جب حضرت امام ہادی علیہ السلام نے شہادت پائی اس وقت آپ علیہ السلام ۲۲ برس کے تھے، آپ علیہ السلام کی مدّت امامت چھ سال تھی۔ شہادت کے دن سے پہلے کی رات میں آپ علیہ السلام نے مدینہ کے لوگوں کے لئے کئی خط تحریر فرمائے تھے۔
نماز صبح کے وقت، حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ نے آپ علیہ السلام کو وضو کرایا، اور جوشاندہ پیش کیا گیا، اس کے بعد آپ علیہ السلام کی شہادت رونما ہوئی۔ [۴]
جب سامرّا والوں کو شہادت کی خبر ہوئی، تو شہر کے سارے بازار بند کردیے گئے اور لوگ آپ علیہ السلام کے گھر کے پاس جمع ہوگئے۔
خلیفہ کے وزراء اور دربار کے لوگ، بنی ہاشم اور علویّون گھر پر حاضر ہوئے۔ سامرّا میں چہار جانب سے نالہ و شیون کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں اور ایک قیامت برپا تھی۔ [۵]
حضرت امام عصر علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو غسل دیا اور تکفین کے بعد نماز کے لئے امام علیہ السلام کا بدن مطهّر لایا گیا۔
آپ علیہ السلام کے بھائی جعفر آگے آئے تاکہ بدن مبارک پر نماز پڑھیں، جیسے ہی تکبیر کہنا چاہا تبھی حضرت امام عصر علیہ السلام جو کہ ایک گندم گوں، گنگھرالے بال، کشادہ دندان، چاند سے چمکتے چہرے والے ابھی کمسن طفل تھے حجرہ سے باہر تشریف لائے، اور جعفر کی ردا پکڑی اور ان کو اس جگہ سے ہٹا دیا اور اپنے پدر بزرگوار پر نماز پڑھی اور اس کے بعد امام علیہ السلام کے بدن اطہر کو آپ علیہ السلام کے والد محترم حضرت امام ہادی علیہ السلام کے قریں دفن کیا گیا۔ [۶]
جعفر نے اس واقعہ کی خبر معتمد کو دی، تو آپ عجل اللہ تعالی فرجہ کو ہر جگہ تلاش کیا گیا، لیکن کہیں بھی آپ عجل اللہ فرجہ کا سراغ نہ پاسکے۔
حضرت امام عسکری علیہ السلام کی شہادت _ سنہ ۲۶۰ ھ _ کے سال ہی محدّث جلیل جناب فضل بن شاذان کی رحلت ہوئی ہے۔ فضل بن شادان ۱۸۰ کتابوں کے مؤلف ہیں، حضرت امام عسکری علیہ السلام نے تین بار ان پر رحمت کی دعا فرمائی ہے۔ [۷]
📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۸/ربیع الاول، ص۹۸
📚 حوالہ جات :
[۱] الکافی، ج۱، ص۵۰۳؛ كمال الدين و تمام النعمة، ص۴۷۴؛ دلائل الإمامة، ص۴۲۴؛ الإرشاد ج۲، ص۳۳۶، ۳۱۳۔۔۔
[۲] تهذیب المقال، ج۳، ص۵۳۲؛ خاتمة المستدرک، ج۱، ص۲۲۲؛ معجم رجال الحدیث، ج۲، ص۱۳۹
[۳] الکافی، ج۱، ص۵۱۳؛ قلائد النحور، ج رجب ص۱۴۴؛ الامام العسکری، شاکری، ص۴۵۴-۴۷۴، بحار الانوار، ج۵۰، ص۳۰۸
[۴] کمال الدّین، ص۴۷۳؛ الغیبۃ (شیخ طوسی)، ص۲۷۳؛بحار الانوار، ج۵۰، ص۳۳۱، ج۵۲، ص۱۶
[۵] الکافی، ج۱، ص۵۰۵، بحارالانوار، ج۵۰، ص۳۲۸، ۳۳۲]
[۶] کمال الدّین، ص۴۷۵؛ بحار الانوار، ج۵۰، ص۳۳۲
[۷] اختیار معرفة الرّجال، ج۲، ص۸۲۱ ـ۸۱۷، وسائل الشيعة، ج۳۰، ص۴۴۷؛ تتمۃ المنتہیٰ، ص۳۵۰
"اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرِّ التَّقِيِّ الصَّادِقِ الْوَفِيِّ النُّورِ الْمُضِي ءِ خَازِنِ عِلْمِكَ وَ الْمُذَكِّرِ بِتَوْحِيدِكَ وَ وَلِيِّ أَمْرِكَ وَ خَلَفِ أَئِمَّةِ الدِّينِ الْهُدَاةِ الرَّاشِدِينَ وَ الْحُجَّةِ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا فَصَلِّ عَلَيْهِ يَا رَبِّ أَفْضَلَ مَا صَلَّيْتَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَصْفِيَائِكَ وَ حُجَجِكَ وَ أَوْلادِ رُسُلِكَ يَا إِلَهَ الْعَالَمِينَ "