۱/ ربیع الاول
۱ – #پیغمبر_صلی_اللہ_علیہ_و_آلہ_کے_جسم_مطہر_کی_تدفین
یکم ربیع الاول کی آدھی رات کو امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت خاتم الانبیاء و المرسلین صلّی اللہ علیہ و آلہ کے جسم اطہر کو دفن فرمایا۔[۱]
ایک طرف پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت کی جانکاہ مصیبت اور اس پر آنحضرت ص کی بے حرمتی اور غسل و کفن اور دفن کی طرف سے لوگوں کی بے توجہی ایسے دردناک غم تھے جو امیر المومنین علیہ السلام کو نڈھال کیے دے رہے تھے۔ [۲]
جیسا کہ آپ علیہ السلام ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «کیا میں نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ کے جسم اطہر کو تنہا چھوڑ دیتا اور دفن کیے بغیر خلافت اور حکومت کے سلسلہ میں لڑتا جھگڑتا؟» [۳]
شیخ مفید فرماتے ہیں: «لوگوں کی اکثریت پیغبر صلّی اللہ علیہ و آلہ کے دفن میں حاضر نہیں ہوئی، اور انہوں نے آنحضرت ص پر نماز نہیں پڑھی، کیونکہ مہاجرین و انصار کے درمیان امر خلافت پر مشاجرہ چل رہا تھا۔ [۴]
اعمش کہتے ہیں: پیغمبر ص دنیا سے رخصت ہوگئے اور لوگوں کو اس کی کوئی پروا نہ تھی سوائے اس کے کہ کچھ لوگ کہیں: «امیر ہم میں سے ہوگا» اور دوسرے کہیں کہ: «امیر ہم میں سے ہوگا»۔ [۵]
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت کے وقت مغیرہ نے حضرت ابوبکر و عمر سے مخاطب ہوکر کہا: اگر مستقبل میں لوگوں سے آپ کا کوئی مطلب ہے تو ان کی خبر لیں۔ [۶]
لہذا ابوبکر و عمر نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ کی تدفین پر حاضر نہ تھے، بلکہ وہ ان لوگوں کے درمیان تھے جو سقیفہ میں اپنا امیر چن رہے تھے، اور اس سے پہلے کہ وہ لوگ واپس آئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کا بدن مبارک دفن ہوچکا تھا۔ [۷]
عبداللَّہ بن حسن کہتے ہیں: خدا کی قسم ابوبکر و عمر نے پیغمبر صلّی اللَّہ علیہ و آلہ پر نماز نہیں پڑھی، اور تین دن تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کا جسم اطہر دفن نہ ہوا، لیکن پھر بھی اہل سقیفہ اپنے کام میں مشغول رہے۔ [۸]
حضرت امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں: لوگ دوشنبہ کے دن اور سہ شنبہ کی رات آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ پر نماز پڑھتے رہے، عام لوگوں یہاں تک کہ خاص اور قریبیوں نے نماز ادا کی، لیکن سقیفہ والوں میں سے کوئی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے غسل و کفن و دفن میں شریک نہ ہوا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے بریده اسلمی کو خبر دینے کے لئے ان کی جانب بھیجا لیکن انہوں نے توجہ نہ دی اور دفن کے بعد ان کی بیعت کا کام بھی ختم ہوگیا۔ [۹]
اس بارے میں عائشہ بنت ابی بکر نے جو فرمایا ہے، قابل توجہ ہے: "واللہ ہمیں پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ کے دفن کی خبر نہ لگی یہاں تک کہ بدھ کی رات میں ان کے حجرے سے بیلچوں کی آوازیں سنیں"۔ یعنی دفن کے بعد ہمیں خبر لگی۔ [۱۰]
وہ لوگ جو غصب خلافت میں سب چیز بھول بیٹھے تھے ان سے پوچھنا چاہئے:
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی حیات میں سقیفہ کی تاکید فرمائی تھی یا غدیر کی؟
خدا کی جانب سے سقیفہ میں شوریٰ کی تشکیل کا حکم آیا تھا یا غدیر کے سلسلہ میں؟
سقیفہ میں مسلمانوں کے اکثر شہروں کے لوگ موجود تھے یا غدیر میں؟
سقیفہ میں سب لوگ حاضر تھے یا غدیر میں جہاں خواتین نے بھی بیعت کی تھی؟
۲ - #لیلۃ_المبیت
اس مہینہ کی پہلی رات میں پیغمبر صلّی اللَّہ علیہ و آلہ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ اس رات ہمارے آقا و مولا امیر المومنین علیہ السلام نے جانثاری کا مظاہرہ فرمایا اور حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ کی جگہ ان کے بستر پر سوگئے۔ [۱۱]
کیونکہ کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کے قتل کا ارادہ کر لیا تھا۔ اسی مناسبت سے آیت نازل ہوئی: "وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَءُوفُ بِالْعِبَادِ" اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ ایسے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ [۱۲]
جو کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ [۱۳]
غزالی اپنی کتاب احیاء العلوم جلد ہفتم باب ایثار میں لکھتے ہیں: جس رات حضرت امیر المومنین علیہ السلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی جگہ سوئے، خدا نے جبرئیل و میکائیل کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور تم میں سے ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ قرار دی، تم میں سے کون ہے جو ایثار کرتے ہوئے وہ عمر دوسرے کو دے دے؟ تو دونوں نے اپنے لئے طولانی عمر کا انتخاب کیا۔
خطاب ہوا: "زمین کی طرف توجہ کرو اور دیکھو کہ کس طرح علی (علیہ السلام) نے اپنی حیات کو اپنے بھائی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ پر فدا کردی اور ان کی جگہ پر سو کر اپنی جان کو قربان کردیا ہے، زمین پر جاؤ اور ان کی حفاظت کرو"۔ وہ زمین پر آئے اور جبرئیل امیر المومنین علیہ السلام کے سر کی جانب اور میکائیل آپ علیہ السلام کی پائینتی کی طرف تشریف فرما ہوئے اور آواز دی: "بخ بخ من مثلک یابن ابی طالب، خدا ملائکہ کے سامنے آپ پر مباہات کررہا ہے" اس وقت یہ آیت شریفہ نازل ہوئی: "و من الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات اللَّه"۔ [۱۴]
۳ - #ہجرت_پیغمبر_صلی_اللہ_علیہ_و_آلہ
حضرت پیغمبر صلّی اللَّہ علیہ و آلہ نے بعثت کے ۱۳ سال بعد مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت فرمائی۔
۴– #ہجری_قمری_کی_تاریخ_کا_آغاز
سب سے پہلے جس نے ہجری قمری تاریخ کے سلسلہ میں حکم دیا وہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ تھے۔ خلیفہ ثانی کے دور میں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اسے تفصیل سے بیان فرمایا اور ہجری قمری تقویم کو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی ہجرت سے قرار دیا گیا۔
ہجری قمری تاریخ مقرر کرنے کے سلسلہ میں دوسروں کی طرف نسبت دینا غلط ہے۔ [۱۵]
۵ – #خانہ_وحی_پر_ہجوم
اس دن حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے دولتکدہ پر پہلا ہجوم ہوتا ہے۔ جس وقت حضرت امیر المومنین علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی تجہیز و تکفین اور تدفین کی کوشش میں تھے، غاصبین خلافت ثقیفہ میں تھے۔ آپ علیہ السلام نے یکم ربیع الاول کی شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کے بدن اقدس کو دفن فرمایا اور پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی وصیت کے مطابق قرآن جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ [۱۶]
کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا تھا: "اے علی! تین دن گھر سے باہر نہ نکلنا اور قرآن جمع کرنا۔۔۔"۔ [۱۷]
ان دنوں میں تین بار آپ علیہ السلام کے گھر پر لوگوں کا ہجوم ہوا، پہلی بار یکم ربیع الاول میں بیعت لینے کے لئے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک قرآن مکمل جمع نہ کرلوں گھر سے باہر قدم نہیں رکھوں گا تو وہ لوگ واپس چلے گئے۔ اس کے بعد حضرت امیر المومنین علیہ السلام راتوں میں حضرت صدیقہ طاہرہ اور حسنین علیہم السلام کے ساتھ اصحاب کے پاس جاتے اور مدد کا تقاضا فرماتے تھے۔ [۱۸]
دوسری بار، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کے جسم اقدس کی تدفین کے سات دن بعد، اس وقت کہ جب زبیر اور بعض دوسرے لوگ حضرت امیر المومنین علیہ کے بیت اقدس پر جمع ہوگئے تھے۔ اس دن زبیر نے عمر کے قصد سے تلوار نکال لی تھی لیکن شمشیر ان کے ہاتھ لے لی گئی۔ [۱۹]
اور تیسری بار آپ علیہ السلام کے بیت پر ہجوم ہوا، تو دروازے کو آگ لگائی گئی، حضرت صدیقۂ طاہرہ کو زخمی کیا گیا، حضرت محسن کو شہید کیا گیا، اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو رسن بستہ گھر سے باہر لایا گیا۔ [۲۰]
۶ - #مسمومیت_امام_عسکری_علیہ_السلام
امام حسن عسکری علیہ السلام زہر سے مسموم ہوئے اور آپ کی بیماری کا آغاز ہوا۔ [۲۱]
ایک قول کے مطابق حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت سنہ ۲۶۰ھ میں اسی روز واقع ہوئی ہے۔ [۲۲]
اور دوسرے قول کے مطابق آپ علیہ السلام کی شہادت چوتھی ربیع الاول یا آٹھویں ربیع الاول کو واقع ہوئی ہے۔ [۲۳]
📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱/ربیع الاول، ص۹۰۔
📚حوالہ جات:
۱۔ تقریب المعارف، ص۲۵۱؛ مناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۲۲۷؛ کشف المحجۃ، ص۱۲۵؛ مستدرک الوسائل، ج۲، س۴۸۶۔۔۔
۲۔ خصال: ص۳۷۲؛ اختصاص، ص۱۷۱؛ ارشاد القلوب، ج۲، ص۳۴۹۔۔۔
۳۔ احتجاج، ج۱، ص۹۶؛ الغدیر، ج۵، ص۳۷۲؛ ج۷، ص۸۱؛ الہجوم علی بیت فاطمہ، ص۱۲۰۔۔۔
۴۔ ارشاد مفید، ج۱، ص۱۸۹؛ بحار الانوار، ج۲۲، ص۵۱۹۔۔۔
۵۔ تقریب المعارف، ص۲۵۶؛ بحار الانوار، ج۳۰، ص۲۹۰۔۔۔
۶۔ الہجوم علی بیت فاطمہ، ص۶۹؛ البدء و التاریخ، ج۵، ص۶۵
۷۔ الہجوم علی بیت فاطمہ، ص۶۹؛ المنصف ابن ابی شیبہ، ج۸ ص۵۷۲۔۔۔
۸۔ تقریب المعارف، ص۲۵۱؛ بحار الانوار، ج۳۰، ص۳۸۶۔۔۔
۹۔ مناقب ابن شهر آشوب، ج۱، ص۲۹۷؛ بحار الانوار، ج۲۲، ص۵۲۴؛ الہجوم علی بیت فاطمہ، ص۶۷۔۔۔
۱۰۔ الہجوم علی بیت فاطمہ، ص۷۲؛ سنن بیہقی، ج۳، ص۴۰۹؛ تاریخ الاسلام (ذهبی)، ج۱، ص۵۸۲۔۔۔
۱۱۔ کافی، ج۸، ص۳۳۹؛ مسار الشیعہ، ص۲۷؛ مصباح المتہجد، ص۷۳۲۔۔۔
۱۲۔ سورہ بقرہ، آیت ۲۰۷
۱۳۔ [ارشاد، ج۱، ص۵۳؛ امالی طوسی، ص۲۵۲۔۔۔
۱۴۔ مناقب آل ابی طالب، ج۲، ص۷۷؛ الجواہر السنیہ، ص۳۰۸۔۔۔
۱۵۔ اس موضوع کی تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں: بحار الانوار، ج۵۵، ص۳۵۱۔۳۵۰؛ الصحیح من السیرہ، ج۴، ص۲۰۶۔۱۷۴۔۔۔
۱۶۔ بحار الانوار، ج۲۸، ص۱۹۱،۔۔۔۵؛ الغدیر، ج۵، ص۳۷۲۔۔۔
۱۷۔ تفسیر فرات، ص۳۹۸؛ کافی، ج۸، ص۱۸۔۔۔
۱۸۔ کتاب سلیم، ص۱۲۸ (ج۲، ص۶۶۵)؛ احتجاج، ج۱، ص۹۸، ۲۸۱۔۔۔
۱۹۔ احتجاج، ج۱، ص۹۵، ۱۱۱؛ الجمل شیخ مفید، ص۵۷۔۔۔
۲۰۔[کتاب سلیم، ص۸۲، ۲۴۹؛ بصائر الدرجات، ص۲۹۵۔۔۔
۲۱۔ ارشاد، ج۲، ص۲۳۶؛ مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۴۵۵۔۔۔
۲۲۔ مصباح المتہجد، ص۷۳۲؛ مصباح کفعمی، ج۲، ص۵۳۳۔۔۔
۲۳۔ مسار الشیعہ، ص۲۸؛ فیض العلام، ص۲۰۵
https://www.facebook.com/klmnoor