یکم ذی الحجہ
#زواج_النورین
🌷عقد حضرت زہرا و امیرالمومنین علیہما السلام🌷
🔸جنگ بدر کے خاتمہ کے بعد آپ کا عقد مولائے کائنات ع سے ہوا، جب کہ آپ کے فضائل و کمالات کا شہرہ سن کر تمام بڑے بڑے افراد نے آپ کے عقد کا پیغام دیا تھا اور وحی خدا نے سب کے پیغامات کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ نور کا رشتہ صرف نور سے ہوسکتا ہے۔
یکم ذی الحجہ سنہ۲ھ کو یہ عقد عمل میں آیا۔
🔹 امیر المومنین ع کے پیغام پر رسول اکرم ص نے مہر کا مطالبہ کیا۔ آپ ع کے پاس مال دنیا میں ایک تلوار، ایک رہوار اور زرہ تھی۔ آپ نے زرہ کے فروخت کرنے کا حکم دیا۔ ۵۰۰ درہم مین زرہ فروخت ہوئی اور وہی رقم جناب سیدہ س کا مہر قرار پائی، جس سے روز اول یہ واضح ہوگیا کہ مہر کی ادائیگی اس قدر اہم مسئلہ ہے کہ اسے عقد سے پہلے ہی ہوجانا چاہئے چاہے اس کی راہ میں بہترین سامان زندگی فروخت کرنا پڑے۔ اور اس طرح اس عصری نظریہ کی تردید ہوگئی کہ مہر صرف برائے تذکرہ ہوتا ہے اور اس کا ادائیگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، یا سامانِ زندگی فروخت کرنا ہے تو شادی کے انتظامات کے لئے کیا جائے مہر کی ادائیگی کے لئے نہیں۔
🔸 مہر کی رقم لے کر رسول اکرم ص نے جہیز کا انتظام کیا جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جہیز لعنت نہیں ہے سنت ہے، البتہ اس کا انتظام مہر کی رقم سے ہونا چاہئے اور ضروریات زندگی کی حد تک محدود رہنا چاہئے۔ مہر سے زیادہ جہیز کا مطالبہ کرنا، یا مہر ادا کیے بغیر جہیز کا تقاضا کرنا یقینا ایک بدعت ہے جسے ظالمانہ حرکت اور نفسانیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
جناب سیدہ کے جہیز کی کل تفصیل یہ ہے:
۱۔ ایک سفید پیراہن ۲۔ ایک چادر ۳۔ ایک حلۂ سیاہ ۴۔ ایک تخت خواب ۵۔ دو عدد توشک ۶۔ چار تکیے ۷۔ ایک چٹائی ۸۔ ایک چکی ۹۔ ایک کاسہ مسی ۱۰۔ ایک مشک ۱۱۔ ایک ظرف لباس شوئی ۱۲۔ ایک کاسۂ شیر ۱۳۔ ایک ظرف آبخوری ۱۴۔ ایک پردہ ۱۵۔ ایک لوٹا ۱۶۔ ایک پوست برائے فرش ۱۷۔ ایک سبوئے گلی ۱۸۔ دو مٹی کے پیالے ۱۹۔ ایک عبا۔
اس سامان کی مجموعی قیمت ۶۳ درہم تھی جبکہ مہر کی رقم ۵۰۰ یا ۴۸۰ درہم تھی۔ اس تفصیل سے جہیز کی نوعیت کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے اور مہر کے مقابل میں اس کی مالیت کا بھی۔ کاش ہمارے بزرگوں نے مہمل رسموں اور نام و نمود کے ڈھکوسلوں سے قطع نظر کرکے سیرت معصومین کو رواج دیا ہوتا تو آج قوم و ملت اس قدر مصائب سے دوچار نہ ہوتی اور مسلمانوں میں مہنگی شادی سستی بدکاری کا پیش خیمہ نہ بنتی۔
🔹 عقد کے چند دنوں کے بعد رخصتی کا انتظام ہوا، بنی ہاشم کی خواتین، مخصوص اصحاب کرام نے اس جلوس میں حصہ لیا اور نہایت احترام کے ساتھ دختر پیغمبر کو مولائے کائنات ع کے گھر پہونچا دیا گیا اس طرح ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا۔
🔸 اس موقع پر انتظامات میں جناب اسماء کا ذکر کیا جاتا ہے جب کہ وہ اس وقت جناب جعفر طیار کی زوجہ تھیں اور ۵ بعثت میں ان کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئی تھیں اور جعفر طیار کی مکمل واپسی ۷ھ میں جنگ خیبر کے بعد ہوئی ہے۔ اس لئے بعض علماء نے اسماء بنت عمیس کے بجائے دوسری خاتون کا احتمال دیا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ مہاجرین کی مدینہ آمد و رفت جاری تھی اور اسی ذیل میں جناب اسماء بھی آگئی ہونگی جس طرح علامہ مجلسی نے اس موقع پر خود جناب جعفر طیار کی شرکت کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ ان کی باقاعدہ واپسی ۷ھ میں ہوئی ہے۔
🔹 دوسرے دن رسول اکرم بیٹی کے گھر تشریف لے آئے اور داماد سے یہ سوال کیا کہ تم نے اپنی زوجہ کو کیسا پایا ہے؟ تو حضرت علی ع نے عرض کی کہ عبادت خدا میں بہترین مددگار۔ جس سے داماد اور خسر کی گفتگو کا انداز، رشتہ کی پاکیزگی کا فلسفہ اور زوجہ کی عظمت و جلالت کا راز کھل کر سامنے آگیا کہ اسلام میں مال و جمال کی کوئی قیمت نہیں ہے، اصل ایمان و کردار ہے؛ اور اس میں حضرت علی (ع) کے علاوہ کائنات میں کوئی مرد صدیقہ طاہرہ (س) کا مثل و نظیر نہیں ہے۔
📚نقوش عصمت، علامہ جوادی طاب ثراہ، ص ۱۶۶۔