🌹 قال الله تعالی:
📖 وَ الَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَ مَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَ لَمْ يُصِرُّواْ عَلىَ مَا فَعَلُواْ وَ هُمْ يَعْلَمُونَ۔
🔵 اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سرزد ہوجائے یا وہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھیں تو خدا کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کا معاف کرنے والا ہے، اور وہ جان بوجھ کر اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔
📚 سورہ آل عمران، آیت۱۳۵
✍🏼 مذکورہ آیت میں پرہیزگاروں کی ایک اور صفت کی جانب اشارہ ہوا ہے کہ وہ لوگ اگر گذشتہ نیک صفات سے متّصف ہوتے ہوئے کسی گناہ کے مرتکب ہوجائیں تو فوراً خدا کو یاد کرتے ہیں اور توبہ انجام دیتے ہیں؛ اور اس پر اصرار نہیں کیا کرتے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب تک خدا کی یاد میں ہوتا ہے وہ گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ، گناہ کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے کہ جب وہ کلی طور پر خدا کو بھول جائے، اور غفلت میں ڈوب جائے؛ لیکن یہ غفلت پرہیزگاروں میں زیادہ دیر تک نہیں رہتی، وہ جلد ہی خدا کی یاد میں پڑجاتے ہیں اور گذشتہ کی تلافی کرلیتے ہیں؛ انہیں اس کا احساس رہتا ہے کہ خدا کے علاوہ ان کے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور صرف اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنا چاہئے۔
توجہ رہے کہ آیت میں فاحشہ کے علاوہ اپنے نفس پر ظلم کا بھی ذکر ہوا ہے؛ ان دونوں میں ممکن ہے یہ فرق ہو کہ فاحشہ سے گناہان کبیرہ کی جانب اشارہ ہو اور اپنے نفس پر ظلم سے گناہان صغیرہ کی جانب۔
اور آیت کے آخری حصّے میں تاکید فرماتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر گناہ پر اصرار نہیں کیا کرتے ہیں۔ اس آیت کے ذیل میں حضرت امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: "الإصرار أن يذنب الذنب فلا يستغفر اللَّه و لا يحدث نفسه بتوبة فذلك الإصرار" گناہ پر اصرار یہ ہے کہ انسان گناہ کرے اور پھر اس پر استغفار نہ کرے اور نہ ہی توبہ کی فکر کرے، یہ ہے گناہ پر اصرار کرنا۔ [تفسیر عیاشی، آیت کے ذیل میں]
📚 تفسير نمونہ، ج3، ص۹۹