13 جمادی الأولی
🏴السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ، السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا وَالِدَةَ الْحُجَجِ عَلَى النَّاسِ أَجْمَعِينَ، السَّلَامُ عَلَيْكِ أَيَّتُهَا الْمَظْلُومَةُ۔۔🏴
▪️ادھر رسول کی آنکھ بند ہوئی، امت نے اپنے ہادی و رہبر کو کھو دیا، تبھی امامت جیسے الہی منصب کو ہتھیانے کی کوشش ہونے لگی۔۔۔۔
▪️اس دوراں تاریخ اسلام کے عبرتناک واقعات پیش آئے، جسے سن کر ہر محب رسول (ص) کا دل خون ہوجائے۔۔۔ ظاہر ہے کوئی حکومت نہیں چاہتی کہ اس کی پیشانی پر کوئی سیاہ دھبہ نظر آئے، وہ اسے ہر ممکن وسیلہ سے مٹادینا چاہتی ہے؛ لہذا بعد رسول(ص) آل رسول (ص) پر کیا کیا بیتی!! تاریخ میں کافی اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن اصل ماجرا کی حقیقت کوئی نہ مٹا سکا کہ نبی کی آنکھ بند ہوتے ہی خلافت پر رسہ کشی ہونے لگی، بہت سے لوگ فقط تماشا دیکھتے رہے؛ بہت کم ہی تھے جو اصل خلافت کے حقدار کے حامی نظر آرہے تھے۔
▪️اس دوران مدافع ولایت کے عنوان سے جس کا نام سب پر بھاری تھا وہ کوئی اور نہیں شہزادی کونین(س) تھیں۔ جیسا کہ بخاری میں بھی لکھا ہے: ... و كانَ لِعَلِىٍّ مِنَ النّاسِ وَجهٌ حَياةَ فاطِمَةَ۔ علی علیہ السلام حضرت فاطمہ س کے زمانہ حیات میں سماج میں اعتبار و مقام رکھتے تھے۔[۱]
▪️ابن ابی الحدید نے بھی لکھتے ہیں:ٖ شہادت حضرت زہرا س کے بعد لوگوں نے امیر المومنین ع سے منھ پھیر لیا [۲]، حکومت مخالف لوگ آپ کی عظمت ہی کے سائے تلے پناہ لئے ہوئے تھے۔ [۳]
▪️حکومت کے گماشتوں کو معلوم تھا جب تک فاطمہ (س) با حیات ہیں حکومت کو شرعی حیثیت نہیں مل سکتی، لہذا مصائب کا دور شروع ہوا، باغ فدک کے بہانے، تو کبھی دولتکدہ میں حکومت مخالف اجتماع کے عنوان سے۔۔۔ اور دھمکی مل گئی واللّه لاَُحرِقَنَّ عَلَيكم أو لَتَخرُجنَّ إلى البَيعة. [۴] حکم ہوا: أضرِموا عليهم البيتَ نارا [۵] ادھر حضرت زہرا(س) دروازہ کے پاس تھیں، در و دیوار میں پس گئیں، [۶] محسن شہید ہوئے، تازیانہ اور غلاف شمشیر کے ذریعہ مزید صدمہ پہونچایا گیا، [۷] بی بی کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔[۸]
▪️ ۔۔۔ تمام تر مصائب کے باوجود ولائی قدم کو کوئی ہلا نہ سکا، اور حضرت زہرا(س) نے امت کو گمراہی سے بچانے کی پوری کوشش کی۔۔ حضرت امیرالمومنین(ع) کے شانہ بشانہ مہاجر و انصار کے گھر گھر گئیں لیکن جواب نہیں ملا۔[۹]
▪️ ۔۔۔ مصائب سے ٹوٹی ہوئی شہزادی شہدائے احد کے مزار پر جاتیں، اور رسول اکرم(ع) کے فراق اور خود پر پڑنے والی مصیبتوں پر گریہ فرماتیں۔[۱۰] ۔۔اب اس جسم میں قوت باقی نہیں بچی، شاید اب زیادہ دنیا میں نہیں رہنا تھا، لوگ بھی متوجہ ہوچکے تھے، خلیفہ اول و دوم نےکوشش کی کہ حضرت زہرا(س) انہیں بخش دیں، ملنے کی اجازت چاہی لیکن نہ ملی، حضرت امیر المومنین(ع) کے توسط سے اجازت تو دے دی لیکن اپنی ناراضگی کا برملا اظہار کیا۔۔۔ بلکہ حضرت امیر المومنین(ع) سے وصیت بھی کر ڈالی کہ رات کے اندھیرے میں دفن کریئے گا۔۔۔ اور جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے انہیں تشییع اور نماز میت کی خبر بھی نہ ہونے پائے۔[۱۱] ۔۔ إِذَا أَنَا مِتُّ فَادْفِنِّي لَيْلًا وَ لَا تُؤْذِنَنَّ رَجُلَيْنِ ذَكَرْتُهُمَا. [۱۲]
🔳 ابھی فراق رسول(ع) کا غم ہلکا نہیں ہوا تھا۔۔۔ امیر المومنین (ع) کی آنکھوں نے ایک اور زندگی کے سہارے کو بچھڑتا دیکھا، سیلاب اشک رواں ہوا۔۔۔۔ زباں پر مرثیہ: السَّلامُ عَلَيكَ يا رسولَ اللّهِ عَنّي وَ عَن اِبنَتِكَ النّازِلَةِ في جِوارِكَ وَ السَّريعَةِ اللَّحاقِ بِكَ۔۔۔
🏴سلام ہو آپ پر اے رسول خدا(ص)! میری اور آپ کی بیٹی طرف سے جو آپ کے جوار میں ہے، اور بہت جلد آپ تک پہونچ گئی۔۔۔[۱۳]
◼️◼️ بعض روایات کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بابا کے بعد ۷۵ روز ہی دنیا میں رہتی ہیں[۱۴] جمادی الاولی کی تیرہویں، چودھویں اور پندرہویں تاریخ زیارت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور ان مظلومہ کے غم میں ماتم کا دن ہے کیونکہ صحیح السند روایت میں ذکر ہوا ہے آپ علیہا السلام اپنے بابا کے بعد پچھتّر دن دنیا میں رہیں اور مشہور روایت کے مطابق حضرت نبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہ ۲۸/ صفر کو رخصت ہوئے ہیں۔[۱۵]
📚حوالے
(۱) صحيح البخاري، ج6، ص395، باب حرمة لحم الحمر الإنسية۔
(۲) شرح نهج البلاغة، ج 6، ص 46 .
(۳) الأمالى للمفيد، ص49؛ شرح نهج البلاغة، ابن أبى الحديد، ج2، ص 56.
(۴) تاريخ الطبرى، ج 2، ص 443 .
(۵) الأمالى ، للمفيد، ص 49.
(۶) معانى الأخبار، ص 206.
(۷) تفسير العيّاشى، ج 2، ص 307ـ 308.
(۸) الإقبال : ج3، ص366.
(۹) الاحتجاج، ج1، ص 107؛ شرح نهج البلاغة ، ابن ابى الحديد، ج11، ص14.
(۱۰) بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج43، ص155
(۱۱) الأمالى للصدوق، ص755، ح 1018
(۱۲) معاني الأخبار، ص356۔
(۱۳) نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص319، خطبہ 202۔
(۱۴) الكافي( ط- الإسلامية)، ج 1، ص 241؛ ج 3، ص 228؛ ج 4، ص 561. مجمع الزّوائد ج 9، ص 168؛
(۱۵) مفاتیح الجنان : اعمال ماه جمادی الأولی.