علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 27 دسمبر، 2020

شرم و حیا روایات کی روشنی میں

 



▪️شرم کی ضرورت نہیں▪️


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 ثلَاثٌ لَا يُسْتَحْيَى مِنْهُنَّ: خِدْمَةُ الرَّجُلِ ضَيْفَهُ، وَ قِيَامُهُ عَنْ مَجْلِسِهِ لِأَبِيهِ وَ مُعَلِّمِهِ، وَ طَلَبُ الْحَقِّ، وَ إِنْ قَلَّ.


🔵 تین کام ایسے ہیں جس میں شرم نہیں کرنا چا ہئیے:


انسان کا اپنے مہمان کی خدمت کرنا۔


اپنے باپ اور استاد کی تعظیم میں اپنی جگہ سے اٹھنا۔


اور اپنے حق کا مطالبہ اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔


📚عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص212، الفصل الثاني بلفظ ثلاث



▪️حیا کی برکتیں▪️


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام


🔴 منْ كَسَاهُ الْحَيَاءُ ثَوْبَهُ لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَه


🔵 جس کو حیا نے اپنا لباس اڑھا دیا ہو اس کے عیب کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے


📚 نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص508، ح[219] 223۔


حضرت امیر المومنین علیہ السلام حیا کے بارے میں فرماتے ہیں: جس کو حیا نے اپنا لباس اڑھا دیا ہو لوگ اس کے عیب نہیں دیکھ سکتے۔


"حیا"  ایک فطری جذبہ اور  اندرونی کیفیت کا نام ہے جس سے انسان برائیوں کے مقابل خود کو محتاط بنا لیتا ہے اور اس سے منھ پھیر لیا کرتا ہے۔


یعنی "حیا" منکرات اور برے کاموں کے مقابل ایک سپر ہے۔ اور اگر یہ سپر نہ ہو، تو انسان بہت آسانی سے غلط کاموں میں پڑ جائے گا اور برائیوں کے تیر اس کے جسم میں پیوست ہوجائیں گے۔


"حیا" کبھی کبھی گناہوں اور برائیوں سے اجتناب کا سبب نہیں بنتی ہے، بلکہ غلطیوں کی پردہ داری اور عیب پوشی کا باعث بن جاتی ہے کہ یہ خود بھی اپنے آپ میں  اسکا نیک اور مثبت اثر ہے۔


امام علیہ السلام نے اس حدیث شریف میں دونوں باتوں کی جانب اشارہ فرمایا ہے؛ "حیا" کو ایسے پاکیزہ لباس سے تعبیر کیا ہے جو مومن زیب تن کرتا ہے اور اگر اس میں عیب بھی پایا جاتا ہو تو اس حیا کے ذریعہ چھپ جاتا ہے اور لوگوں کی نظروں میں نہیں آتا ہے۔


حضرت امام صادق علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق "حیا" انسان کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کی زندگی میں لاتعداد نقوش کی حامل ہے۔


🔴 فرماتے ہیں: انْظُرْ يَا مُفَضَّلُ إِلَى مَا خُصَّ بِهِ الْإِنْسَانُ دُونَ جَمِيعِ الْحَيَوَانِ مِنْ هَذَا الْخَلْقِ الْجَلِيلِ قَدْرُهُ الْعَظِيمِ غَنَاؤُهُ أَعْنِي الْحَيَاءَ فَلَوْلَاهُ لَمْ يُقْرَ ضَيْفٌ وَ لَمْ يُوفَ بِالْعِدَاتِ وَ لَمْ تُقْضَ الْحَوَائِجُ وَ لَمْ يُتَحَرَّ الْجَمِيلُ وَ لَمْ يُتَنَكَّبِ الْقَبِيحُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ حَتَّى إِنَّ كَثِيراً مِنَ الْأُمُورِ الْمُفْتَرَضَةِ أَيْضاً إِنَّمَا يُفْعَلُ لِلْحَيَاءِ فَإِنَّ مِنَ النَّاسِ مَنْ لَوْ لَا الْحَيَاءُ لَمْ يَرْعَ حَقَّ وَالِدَيْهِ وَ لَمْ يَصِلْ ذَا رَحِمٍ وَ لَمْ يُؤَدِّ أَمَانَةً وَ لَمْ يَعِفَّ عَنْ فَاحِشَةٍ أَ فَلَا تَرَى كَيْفَ وَفَى الْإِنْسَانُ جَمِيعَ الْخِلَالِ الَّتِي فِيهَا صَلَاحُهُ وَ تَمَامُ أَمْرِه


🔵 اے مفضل! اس صفت پر توجہ کرو جس کو تمام مخلوقات میں سے صرف انسانوں سے مخصوص کیا گیا ہے، حیوانات اس سے محروم ہیں۔ جو شان و منزلت میں جلیل، نفع اور فائدہ میں بہت عظیم ہے۔  میرا مطلب "حیا" ہے۔ اگر شرم وحیا نہ ہوتی تو نہ کسی کی مہمان نوازی ہوتی، نہ وعدہ وفائی کی جاتی، اور نہ ہی لوگوں کی ضرورتیں پوری کی جاتیں، اور نہ ہی اچھے اور نیک کاموں کو اہمیت دی جاتی اور نہ ہی کسی غلط اور برے کام سے پرہیز کرتے، یہاں تک کہ بہت سے واجبات بھی اسی حیا کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں؛ اگر یہ حیا نہ ہوتی تو بعض لوگ اپنے ماں باپ کے حق کی پروا نہ کرتے، اور رشتہ داروں سے صلہ رحم انجام نہ دیتے، امانتیں ادا نہ کرتے، کسی بھی برے کام سے پرہیز کا خیال نہ کرتے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ خدا نے کس طریقہ سے وہ تمام صفات انسان کو عطا کی ہیں جس میں اس کی مصلحت پائی جاتی ہو اور اسکے امور کو پایۂ تکمیل تک لے جانے والی ہو؟


📚 توحيد المفضل، ص79، اختصاص الإنسان بالحياء دون بقية الحيوانات


🔰 اس حدیث شریف سے واضح ہوجاتا ہے کہ حیا کا اثر جیسا کہ بعض کا خیال ہے صرف برائیوں اور غلطیوں سے اجتناب ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ واجبات کی ادائگی، آداب کی رعایت اور اخلاق کے سلسلہ میں بھی اسکا اچھا خاصا کردار ہے۔


✔️ اسی واسطے حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک حدیث مبارکہ میں ملتا ہے: مَنْ لا حَیاءَ لَهُ فَلا إیمانَ لَهُ۔  جس کے پاس حیا نہیں ہوتی اس کے پاس ایمان بھی نہیں ہوتا۔ [شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، ج19، ص47،  [فصل في الحياء و ما قيل فيه]


📚پیام امام امیرالمؤمنین(ع)،  ج13،  ص699۔



▪️باحیا کون؟▪️


عقلمند:


🔰 شرم و حیا عقلمند اور باخبر ہونے کی نشانی ہے:


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 أعْقَلُ النَّاسِ أَحْيَاهُم

🔵 با حیا ترین انسان ہی عقلمند ترین انسان ہے


📚 تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص256، فضيلة الحياء


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 الْحَيَاءُ وَ الدِّينُ مَعَ الْعَقْلِ حَيْثُ كَانَ۔

🔵 عقل جہاں کہیں بھی ہو حیا اور دین بھی اسی کے ساتھ ہونگے


📚 كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط - القديمة)، ج2، ص269۔


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 هبَطَ جَبْرَئِيلُ عَلَى آدَمَ ع فَقَالَ يَا آدَمُ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أُخَيِّرَكَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ فَاخْتَرْهَا وَ دَعِ اثْنَتَيْنِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ يَا جَبْرَئِيلُ وَ مَا الثَّلَاثُ فَقَالَ الْعَقْلُ وَ الْحَيَاءُ وَ الدِّينُ فَقَالَ آدَمُ إِنِّي قَدِ اخْتَرْتُ الْعَقْلَ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ لِلْحَيَاءِ وَ الدِّينِ انْصَرِفَا وَ دَعَاه فَقَالاَ يَا جَبْرَئِيلُ إِنَّا أُمِرْنَا أَنْ نَكُونَ مَعَ اَلْعَقْلِ حَيْثُ كَانَ قَالَ فَشَأْنَكُمَا وَ عَرَجَ .

🔵‏ حضرت جبرئیل جناب آدم علیہ السلام پر نازل ہوئے، فرمایا: اے آدم! مجھے حکم ہے کہ آپ کو تین چیزوں میں کسی ایک کے انتخاب کرنے کا اختیار دوں لہذا ایک کا انتخاب کریں اور دو کو چھوڑ دیں۔ جناب آدم علیہ السلام نے سوال کیا: اے جبرئیل وہ تین چیزیں کیا ہے؟ فرمایا: عقل، حیا اور دین۔ جناب آدم علیہ السلام نے فرمایا: میں عقل کا انتخاب کرتا ہوں۔ جبرئیل نے حیا اور دین سے کہا: واپس جاؤ اور اسے چھوڑ دو۔ ان دونوں نے کہا: اے جبرئیل! ہمیں حکم ہے کہ ہم عقل کے ساتھ ہی رہیں وہ جہاں بھی  رہے۔ فرمایا: تمہیں اختیار ہے اور واپس چلے گئے۔


📚 الكافي (ط - الإسلامية)، ج1، ص10، كتاب العقل و الجهل


مومن


🔰 حیا اور ایمان کا آپس میں گہرا رابطہ ہے کہ اگر حیا نہ ہو تو ایمان بھی نہیں، جب تک انسان اخلاقی فضائل کا معتقد نہیں ہوتا حیا  کی تجلیّات دکھائی نہیں پڑتیں:


🌷🌷حضرت امام باقر و امام صادق علیہما السلام:


🔴 الْحَيَاءُ وَ الْإِيمَانُ مَقْرُونَانِ فِي قَرَنٍ فَإِذَا ذَهَبَ أَحَدُهُمَا تَبِعَهُ صَاحِبُهُ.

🔵 حیا اور ایمان ایک ہی رسّی میں ساتھ ساتھ ہیں جب بھی دونوں میں سے کوئی ایک اُٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اس کے ساتھ چل پڑتا ہے


📚الكافي (ط - الإسلامية)ِ، ج2، ص106، باب الحياء


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴إنَّ الْحَيَاءَ وَ الْعِفَّةَ لَمِنْ خَلَائِقِ الْإِيمَانِ وَ إِنَّهُمَا لَسَجِيَّةُ الْأَحْرَارِ وَ شِيمَةُ الْأَبْرَارِ.

🔵 بیشک حیا اور عفت ایمان کی خصلتوں میں سے ہیں اور یہ دونوں آزاد لوگوں کی فطرت اور نیک لوگوں کی صفت ہیں۔


📚 عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص153۔


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 كثْرَةُ حَيَاءِ الرَّجُلِ دَلِيلُ إِيمَانِه

🔵 انسان میں حیا کی کثرت اسکے ایمان کی نشانی ہے


📚 تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص257، فضيلة الحياء


دیندار


🔰 اگر حیا نہ ہو تو دینداری مشکل کا شکار ہوجاتی ہے؛ ایمان، اخلاق اور احکام سبھی متاثر ہوتے ہیں؛ حیا ایسی  صفت کا نام ہے جسے کہیں پر دین کا لباس کہا گیا ہے تو پورا کا پورا دین بتایا گیا ہے:


🌷🌷حضرت رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:


🔴ألحَیاء هُوَ الدّین کُلُّه

🔵 حیا تمام دین ہے


📚 نهج الفصاحه  ص 453، ح1428.


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴أحْسَنُ مَلَابِسِ الدِّينِ الْحَيَاء

🔵 بہترین لباس دین، حیا ہے۔


📚عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص118۔



▪️سب کے لئے ہے لیکن خواتین۔۔۔۔▪️


جہاں ایک طرف تبرّج، آراستگی، زینت جیسی عظیم نعمت سے صنف نسواں کو نوازا گیا ہے تاکہ وہ اپنی جذّابیت و کشش کی خداداد قوّت سے گلستان عالم کو عشق و محبت کے پھولوں سے سجادے اور اپنے بہترین اخلاق و کردار، اچھی تربیت کے ذریعہ نسل بشر کی ضامن قرار پائے؛۔۔۔۔۔۔ وہیں پر خواتین کے خاص امتیازات اور خصوصیات کے مدّ نظر اسے"حیا" جیسی اعلیٰ صفت کا پیکر بننے میں دوسروں پر فوقیت عطا ہوئی؛ تاکہ اسکی متانت، عزّت، وقار اور خاص طور پر پاکدامنی اور عفّت پر حرف نہ آنے پائے؛۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہی وہ خوبصورت معاشرے، بہترین تہذیب و ثقافت میں اپنے اعلیٰ کردار کا نمونہ پیش کرنے میں جھجھک محسوس کرے اور نہ ہی اپنی خصوصیات کے نقطۂ اعتدال سے ہٹتے ہوئے بے شرمی، بے حیائی کے دلدل میں پھنس کر خود کو مضطرب اور معاشرہ کو بیمار بنا جائے۔


⚠️ لہذا:


🔰 حیا کے نو جزء خواتین کے لئے:


🌷🌷حضرت امام صادق علیہ السلام:


🔴 الحَياءُ عَشَرَةُ أَجزاءٍ فَتِسعَةٌ فِى النِّساءِ وَواحِدٌ فِى الرِّجالِ.....

🔵 شرم و حیا کے دس جزء ہیں جس کے نو جزء خواتین میں ہوتے ہیں اور ایک جزء مردوں میں۔


📚 من لا يحضره الفقيه، ج3، ص468، باب النوادر


🔰 خواتین کے لئے بہت ہی خوب


🌷🌷حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم:


🔴 الحَياءُ حَسنٌ و لكنْ في النِّساءِ أحسَنُ

🔵 حیا خوب اور پسندیدہ چیز ہے لیکن خواتین میں بہت ہی خوب اور پسندیدہ ہے۔


📚 نهج الفصاحة، ص578، ح2006۔


🔰 جس میں حیا نہ ہو


🌷🌷حضرت امام رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم


🔴 امْرَأَةٌ لَا حَيَاءَ لَهَا كَطَعَامٍ لَا مِلْحَ لَه

🔵 جس عورت میں شرم و حیا نہ ہو اس کی مثال ایسے کھانے جیسی ہے جس میں نمک ہی نہ ہو


📚 إرشاد القلوب، ج1، ص193، الباب الثاني و الخمسون في أحاديث منتخبة


🔰 یاد رہے


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 علَى قَدْرِ الْحَیَاءِ تَکُونُ الْعِفَّةُ

🔵 جتنی شرم و حیا ہوگی اتنی ہی  عفت اور پرہیزگاری  ہوگی.


📚 تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص256، العفة



▪️بے حیائی کے سامان▪️▪️


اگرچہ شرم و حیا انسان کی فطرت میں شامل ہے لیکن کچھ ایسی چیزیں ہیں جب وہ انجام پاتی ہیں تو فطرت پر اپنی برچھائیں چھوڑ جاتی ہیں اور انسان "حیا" سے گر کر بے حیائی میں پڑ جاتا ہے۔ ان میں سے بعض اس طرح سے ہیں:


فضول کی بے تکلّفی


🌷🌷حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام:


🔴 لا تُذْهِبِ الْحِشْمَةَ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ أَخِيكَ أَبْقِ مِنْهَا فَإِنَّ ذَهَابَهَا ذَهَابُ الْحَيَاءِ.

🔵 اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان بزرگی اور احترام کو ختم نہ ہونے دو اس میں سے کچھ باقی رکھو، کیونکہ اس کا ختم ہوجانا گویا حیا کا رخصت ہوجانا ہے۔


📚 الكافي (ط - الإسلامية)، ج2، ص672، باب النوادر


🔰اگر معاشرے میں اپنے حدود کا خیال نہ رکھا جائے، دائرۂ احترام کا لحاظ نہ رہے اور ہر کوئی دوسروں کے حریم میں سیندھ لگانے لگے، ملاقات، بول چال میں ادب باقی نہ رکھے تو آہستہ آہستہ شرم و حیا رخصت ہونے لگتی ہے اور بے حیائی عام ہوجاتی ہے، ایک دوسرے کا خیال رکھنا جہاں بہت ہی محبوب عمل ہے لیکن اگر یہی اتنی زیادہ بے تکلفی کا سبب بن جائے کہ حدوں کا پاس و لحاظ نہ رہے تو یہی چیز بے حیائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔



لوگوں کے سامنے غیر ضروری ہاتھ پھیلانا:


🌷🌷حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام


🔴 طلَبُ اَلْحَوَائِجِ إِلَى اَلنَّاسِ اِسْتِلاَبٌ لِلْعِزِّ وَ مَذْهَبَةٌ لِلْحَيَاءِ۔

🔵 لوگوں کی سامنے دست سوال پھیلانا عزّت کے چھن جانے اور شرم و حیا کے ختم ہوجانے کا سبب ہوتا ہے.


📚 الكافي (ط - الإسلامية)، ج2، ص148، باب الاستغناء عن الناس


🔰 اگرچہ انسانی زندگی میں ایسے موڑ آتے رہتے ہیں جہاں دوسروں سے درخواست کی ضرورت پڑجاتی ہے لیکن یہی چیز اگر عادت بن جائے اور گداگری ایک شیوہ ہوجائے  تو پھر عزّت و آبرو کا خیال نہیں رہتا اور شرم و حیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی ہے۔



زیادہ بولنا


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 منْ كَثُرَ كَلَامُهُ كَثُرَ خَطَؤُهُ وَ مَنْ كَثُرَ خَطَؤُهُ قَلَّ حَيَاؤُهُ وَ مَنْ قَلَّ حَيَاؤُهُ قَلَّ وَرَعُهُ وَ مَنْ قَلَّ وَرَعُهُ مَاتَ قَلْبُه

🔵 جس کی باتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی خطائیں زیادہ ہوتی ہیں اور جس کی خطائیں زیادہ ہوں اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم و حیا کم ہو اس کی پرہیزگاری کم ہوجاتی ہے اور جس کی پرہیزگاری کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے۔


📚 نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص536، ح [355] 349


🔰 بہت زیادہ باتونی ہونا بھی وبال جان ہوسکتا ہے، کیونکہ حد سے زیادہ باتیں کرنے سے ایک طرف تو خطا کے امکانات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں جس سے بار بار معذرت کی ضرورت پڑے، مزید ادب کا لحاظ بھی نہیں رہ پاتا جس کے نتیجے میں حیا بھی رخصت ہونے لگتی ہے۔


شراب خوری:


🌷🌷حضرت امام رضا علیہ السلام:


🔴 و إِنَّ اَللَّهَ تَعَالَى حَرَّمَ اَلْخَمْرَ لِمَا فِيهَا مِنَ اَلْفَسَادِ وَ بُطْلاَنِ اَلْعُقُولِ فِي اَلْحَقَائِقِ وَ ذَهَابِ اَلْحَيَاءِ مِنَ اَلْوَجْهِ

🔵 اور خداوند متعال نے شراب کو حرام قرار دیا کیونکہ اس میں تباہی پائی جاتی ہے اور عقلیں اس سے حقائق تک پہونچ پاتیں، اورچہرے سے  شرم و حیا بھی زائل ہوجاتی ہے۔


📚 الفقه المنسوب إلى الإمام الرضا عليه السلام، ص282، 45 باب شرب الخمر و الغناء


🔰 مے گساری اور شراب نوشی جہاں نور ایمان سے محروم ہوجانے، نماز کی عدم قبولیت، آخرت سے محرومیت، رحمت خدا سے دوری، اور نہ جانے کتنے نقصان اور مفاسد کا پیش خیمہ ہوتی ہے وہیں حضرت امام رضا علیہ السلام نے چہرے سے شرم و حیا کے ختم ہوجانے کو بھی شراب کے حرام ہونے کے فلسفہ میں ذکر فرمایا ہے۔



گناہ:


🌷🌷حضرت امام زین العابدین علیہ السلام:


🔴 و الذُّنُوبُ الَّتِي تَهْتِكُ الْعِصَمَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَ اللَّعِبُ بِالْقِمَارِ وَ تَعَاطِي مَا يُضْحِكُ النَّاسَ مِنَ اللَّغْوِ وَ الْمِزَاحِ وَ ذِكْرُ عُيُوبِ النَّاسِ وَ مُجَالَسَةُ أَهْلِ الرَّيْب

🔵 جو گناہ پردہ عصمت کو تارتار کردیتے ہیں: شراب پینا، جوا کھیلنا، بیہودہ مذاق یا ایسا کوئی نازیبا کام کرنا جس سے لوگوں کو ہنسایا جا سکے، لوگوں کے عیوب کا ذکر کرنا، شکّی اور سست عقیدہ لوگوں کے ساتھ ہمنشینی ہے۔

📚 وسائل الشيعة، ج16، ص282، 41 - باب تحريم التظاهر بالمنكرات۔۔۔



▪️جہاں پر حیا صحیح نہیں ہے▪️


⚠️ نیک کام انجام دینے، حق بات کہنے میں


🌷🌷حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:


🔴 لا تَعْمَلْ شَيْئاً مِنَ الْخَيْرِ رِئَاءً وَ لَا تَدَعْهُ حَيَاء

🔵 کسی بھی عمل کو ریا اور دکھاوے کے لئے انجام نہ دو اور کسی بھی کام کو شرم و حیا کی وجہ سے نہ چھوڑو۔


📚 تحف العقول، ص58، و روي عنه ص في قصار هذه المعاني ...


⚠️علم حاصل کرنے میں


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 و لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَه

🔵 اور جب  کوئی کسی چیز کو نہیں جانتا ہو تو اس کے سیکھنے میں اسے شرمانا نہیں چاہئے


📚 نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص482، ح [79] 82


⚠️رزق حلال کی تلاش میں


🌷🌷حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:


🔴 و مَنْ لَمْ يَسْتَحْيِ مِنْ طَلَبِ اَلْحَلاَلِ مِنَ اَلْمَعِيشَةِ خَفَّتْ مَئُونَتُهُ وَ رَخِيَ بَالُهُ وَ نُعِّمَ عِيَالُهُ

🔵 جو شخص حلال روزی کسب کرنے میں نہیں شرماتا، اس کا خرچ کم ہوگا،  فکر آسودہ رہے گی اور اہل و عیال آرام سے ہونگے۔


📚 تحف العقول، ص57، و روي عنه ص في قصار هذه المعاني



⚠️مہمان کی خدمت، باپ کے احترام، حق کے مطالبہ میں


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:


🔴 ثلَاثٌ لَا يُسْتَحْيَى مِنْهُنَّ: خِدْمَةُ الرَّجُلِ ضَيْفَهُ، وَ قِيَامُهُ عَنْ مَجْلِسِهِ لِأَبِيهِ وَ مُعَلِّمِهِ، وَ طَلَبُ الْحَقِّ، وَ إِنْ قَلَّ.

🔵 تین کام ایسے ہیں جس میں شرم نہیں کرنا چا ہئیے: اپنے مہمان کی خدمت کرنا، اپنے باپ اور استاد کی تعظیم میں اپنی جگہ سے اٹھنا، اور اپنے حق کا مطالبہ اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔


📚 عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص212، الفصل الثاني بلفظ ثلاث


⚠️"مجھے نہیں معلوم" کہنے میں


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام


🔴 و لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ

🔵 اور تم میں سے کسی سے جب اس چیز کے بارے میں دریافت کیا جائے جو وہ نہیں جانتا ہے تو وہ اس سے لاعلمی کے اعتراف میں شرمائے نہیں


📚 نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص482، ح [79] 82


⚠️مختصر اور کم چیز کی بخشش میں


🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام


🔴 لاَ تَسْتَحِ مِنْ إِعْطَاءِ الْقَلِيلِ، فَإِنَّ الْحِرْمَانَ أَقَلُّ مِنْهُ

🔵 مختصر اور کم چیز کے عطا کرنے میں شرم نہ کرو کیونکہ محروم کردینا اس سے بھی کمتر درجہ کا کام ہے


📚نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص479، ح[65] 67۔


https://t.me/klmnoor

 

https://www.facebook.com/klmnoor