علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

منگل، 14 جولائی، 2020

توکّل




توکل

علی بن سوید کہتے ہیں: میں نے حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے خداوند متعال کے اس قول "و مَن يَتَوَكَّلْ علَى اللّه ِ فَهُوَ حَسْبُهُ اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے۔ الطلاق/3" کے بارے میں استفسار کیا۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا:

التَّوَكُّلُ علَى اللّه ِ دَرَجاتٌ؛ مِنها أن تَتَوكَّلَ علَى اللّه ِ في اُمورِكَ كُلِّها، فما فَعلَ بِكَ كُنتَ عَنهُ راضِيا، تَعلَمُ أنّهُ لا يَألُوكَ خَيرا و فَضلاً، و تَعلَمُ أنّ الحُكمَ في ذلكَ لَهُ ، فتَوكَّلْ علَى اللّه ِ بِتَفويضِ ذلكَ إلَيهِ، و ثِقْ بهِ فِيها و في غَيرِها۔

خدا پر توکّل کے متعدد درجات ہیں؛ منجملہ ان میں سے یہ ہے کہ اپنے تمام کاموں میں خدا پر توکّل کرو، اور وہ تمہارے لئے جیسا بھی کرے تم اس سے خوش اور راضی رہو، اور تمہیں معلوم ہو کہ وہ تمہارے سلسلہ میں کسی بھی فضل و خیر میں کوتاہی کرنے والا نہیں ہے، اور یاد رہے کہ اس سلسلہ میں حکم و فرمان اسی کا ہے، لہذا اپنے تمام امور کو خدا پر چھوڑ کر اس پر بھروسہ رکھو، اور اپنے نیز دوسروں کے کاموں کے سلسلہ میں اس پر اعتماد کرو۔

 الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، ص65، باب التفويض إلى الله و التوكل عليه




توکل_کے_فائدے


 حضرت امام علی علیہ السلام

 منْ تَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ ذَلَّتْ لَهُ الصِّعَابُ وَ تَسَهَّلَتْ عَلَيْهِ الْأَسْبَابُ وَ تَبَوَّأَ الْخَفْضَ وَ الْكَرَامَة


 جو شخص خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرتا ہے

 اس لئے مشکلیں آسان ہوجایا کرتی ہیں،

 کام کے اسباب فراہم ہوجاتے ہیں،

 اور وہ آسائش و عزّت اور بزرگی کی منزل میں پہونچ جاتا ہے۔


 تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص197، آثار التوكل

  


حضرت امیر المومنین علیہ السلام:

 منْ وَثِقَ بِاللَّهِ أَرَاهُ السُّرُورَ وَ مَنْ تَوَكَّلَ عَلَيْهِ كَفَاهُ الْأُمُورَ وَ الثِّقَةُ بِاللَّهِ حِصْنٌ لَا يَتَحَصَّنُ فِيهِ إِلَّا مُؤْمِنٌ أَمِينٌ وَ التَّوَكُّلُ عَلَى اللَّهِ نَجَاةٌ مِنْ كُلِّ سُوءٍ وَ حِرْزٌ مِنْ كُلِّ عَدُو

 جو شخص خدا پر اعتماد کرے گا خدا اسے خوشی اور مسرت سے نوازے گا، اور جو اس پر بھروسہ کریگا خدا اس کے تمام امور کے لئے کافی ہوگا،

اور خدا پر اعتماد ایسا قلعہ ہے جس میں مومن کے سوا کوئی پناہ نہیں لے سکتا

اور خدا پر توکل ہر طرح کی برائی سے نجات اور ہر دشمن کے مقابل حرز اور جائے پناہ ہے۔


 كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط - القديمة)،  ج‏2، ص346۔



توکل_کیا_ہے



حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے جناب جبرئیل سے وضاحت چاہی:

 توکل کیا ہے؟

فرمایا:

الْعِلْمُ بِأَنَّ الْمَخْلُوقَ لَا يَضُرُّ وَ لَا يَنْفَعُ وَ لَا يُعْطِي وَ لَا يَمْنَعُ وَ اسْتِعْمَالُ الْيَأْسِ مِنَ الْخَلْقِ فَإِذَا كَانَ الْعَبْدُ كَذَلِكَ لَمْ يَعْمَلْ لِأَحَدٍ سِوَى اللَّهِ وَ لَمْ يَرْجُ وَ لَمْ يَخَفْ سِوَى اللَّهِ وَ لَمْ يَطْمَعْ فِي أَحَدٍ سِوَى اللَّهِ فَهَذَا هُوَ التَّوَكُّلُ

یہ جان لینا کہ مخلوق نہ ضرر پہونچا سکتا ہے اور نہ ہی فائدہ، نہ کچھ دے سکتا ہے نہ کسی چیز سے روک سکتا ہے، اور مخلوق سے امیدیں توڑ لینا؛

جب بندہ ایسا ہوجائے گا پھر وہ خدا کے علاوہ کسی غیر کے لئے کوئی کام نہیں کرے گا اور نہ اس کے علاوہ کسی سے اسکی امیدیں وابستہ ہونگی نہ ہی خوف کھائے گا اور وہ نہ ہی کسی کی طرف لالچ کی نگاہ سے دیکھے گا۔

اسی کو توکّل کہتے ہیں۔

 معاني الأخبار، ص261، باب معنى التوكل على الله عز و جل و الصبر و القناعة و الرضا و الزهد و الإخلاص و اليقين



حضرت امام صادق عليہ السلام:

ليسَ شَيءٌ إلاّ و لَهُ حَدٌّ. قلتُ : جُعِلتُ فِداكَ، فما حَدُّ التَّوَكُّلِ ؟ قالَ : اليَقينُ . قلتُ : فما حَدُّ اليَقينِ ؟ قالَ : ألاّ تَخافَ مَعَ اللّه ِ شَيئا .

ابو بصیر سے روایت ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کوئی ایسی چیز نہیں جس کی حد نہ ہو۔

عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں، تو توکل کی تعریف اور اس کی حد کیا ہے؟

فرمایا: یقین؛

عرض کیا: پھر یقین کی حد کیا ہے؟

فرمایا: یہ کہ خدا کے علاوہ کسی بھی چیز سے نہ ڈرو۔


الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، ص57، باب فضل اليقين



توکل_کیا_ہے



حضرت امام على عليہ السلام کے ارشادات سے:

 ایمان کا رکن


الْإِيمَانُ لَهُ أَرْكَانٌ أَرْبَعَةٌ التَّوَكُّلُ عَلَى اللَّهِ وَ تَفْوِيضُ الْأَمْرِ إِلَى اللَّهِ وَ الرِّضَا بِقَضَاءِ اللَّهِ وَ التَّسْلِيمُ لِأَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ.

ایمان کے چار رکن ہیں: ۱۔ خدا پر توکّل، ۲۔ اپنے امور کو خدا پر چھوڑ دینا، ۳۔ خدا کے فیصلے پر راضی رہنا، ۴۔ اور خدائے عزّ و جلّ کے حکم پر سر تسلیم خم کئے رہنا۔


 الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، ص47، باب خصال المؤمن


 بہترین سہارا


التَّوكُّلُ خَيرُ عِمادٍ.

توکل بہترین سہارا اور تکیہ گاہ ہے۔

عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص26۔


 سرمایہ


التَّوكُّلُ بِضاعَةٌ.

توکّل سرمایہ ہے۔

 غرر الحكم و درر الكلم، ص815۔


 حکمت کا قلعہ


التَّوكُّلُ حِصنُ الحِكمَةِ .

توکل حکمت کا قلعہ ہے

عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص40۔


نجات کا ذریعہ


التَّوكُّلُ علَى اللّه ِ نَجاةٌ مِن كُلِّ سُوءٍ ، و حِرزٌ مِن كُلِّ عَدُوٍّ .

خدا پر توکّل ہر طرح کی برائی سے نجات اور ہر دشمن کے مقابل حرز اور جائے پناہ ہے۔

 كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط - القديمة)، ج‏2، ص346۔


ایمان و ایقان کی نشانی


التَّوَكُّلُ مِنْ قُوَّةِ الْيَقِين‏

توکّل قوّتِ یقین سے ہے

عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص24۔


قوّتِ قلب کا سبب


أصلُ قُوَّةِ القَلبِ التَّوكُّلُ علَى اللّه ِ

قوّتِ قلب کی اصل و اساس خدا پر توکّل ہے۔

 عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص120۔


 بے نیازی


التَّوَكُّلُ كِفَايَة

توکّل تمام امور میں کارساز اور بے نیاز کرنے والا ہے

 عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص35۔


 بہترین عمل


التَّوَكُّلُ أَفْضَلُ عَمَل

توکّل افضل و برتر عمل ہے۔

 عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، ص40۔




توکل_کا_مطلب_سستی_کاہلی_نہیں


توکّل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، کام سے جی چرائیں، سستی کاہلی دکھائیں، اپنے حالات کو نہ سدھاریں، علم و عمل سے بے بہرہ رہیں، اسبابِ رزق و روزی کی طرف نہ جائیں، سعی و کوشش کی دور دور تک خبر نہ ہو، پھر کہیں ہم تو خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔

بلکہ ضروری ہے انسان قدم بڑھائے، سعی و کوشش سے کام لے، جو چیز لازم اور ضروری  ہو اسے انجام دے، اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے، باقی جو چیزیں اسکے ارادے اور قدرت سے باہر ہیں انہیں خدا پر چھوڑ دے کہ وہی مسبب الاسباب اور بہترین چارہ ساز ہے۔

آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول کے مطابق پہلے اونٹ کو صحیح سے باندھ  دیجئے پھر اس کے سلسلہ میں خدا پر توکل کیجئے: اعْقِلْهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّه‏۔ [إرشاد القلوب إلى الصواب (للديلمي)، ج‏1، ص121، الباب الخامس و الثلاثون في التوكل على الله]

مرَّ يَوْماً عَلَى قَوْمٍ فَرَآهُمْ أَصِحَّاءَ جَالِسِينَ فِي زَاوِيَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ ع مَنْ أَنْتُمْ قَالُوا نَحْنُ الْمُتَوَكِّلُونَ قَالَ ع لَا بَلْ أَنْتُمُ الْمُتَأَكِّلَةُ فَإِنْ كُنْتُمْ مُتَوَكِّلِينَ فَمَا بَلَغَ بِكُمْ تَوَكُّلُكُمْ قَالُوا إِذَا وَجَدْنَا أَكَلْنَا وَ إِذَا فَقَدْنَا صَبَرْنَا قَالَ ع هَكَذَا تَفْعَلُ الْكِلَابُ عِنْدَنَا قَالُوا فَمَا نَفْعَلُ قَالَ كَمَا نَفْعَلُ قَالُوا كَيْفَ تَفْعَلُ قَالَ ع إِذَا وَجَدْنَا بَذَلْنَا وَ إِذَا فَقَدْنَا شَكَرْنَا.

ایک دن حضرت امام علی علیہ السلام کچھ لوگوں کے پاس سے گذرتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ کچھ اچھے خاصے، صحیح اور تندرست لوگ ایک مسجد کے گوشہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

انکے قریب جاتے ہیں فرماتے ہیں: آپ کون لوگ ہیں؟

انہوں نے جواب دیا: ہم توکّل کرنے والے لوگ ہیں۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: نہیں بلکہ کھانے والے لوگ ہیں، اگر واقعی آپ لوگ توکّل کرنے والے لوگ ہیں تو بتائیں توکّل کے ذریعہ کس مرحلہ میں پہونچے ہیں؟

وہ کہتے ہیں: جب ہمیں کچھ مل جاتا ہے تو کھالیتے ہیں اور اس پر قناعت کرتے ہیں اور جب کچھ نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں برداشت کرلے جاتے ہیں۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ہمارے یہاں کے کتّے بھی تو یہی کرتے ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا: پھر ہم کیا انجام دیا کریں؟

آپ علیہ السلام نے فرمایا: جو ہم کرتے ہیں۔

سوال کرتے ہیں: آپ کیا کرتے ہیں؟

امام علیہ السلام فرماتے ہیں: (سعی و کوشش، کام، عبادت کے بعد) جو ہمیں ملتا ہے اس سے بذل و بخشش کرتے ہیں، اور جب کوئی درآمد نہیں ہوتی تب بھی خدا کا شکر بجا لاتے ہیں۔


مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج‏11، ص220، باب وجوب التوكل على الله و التفويض إليه