#حضرت_امام_حسین_علیہ_السلام
#کامیابی
⚫️ لَا أَفْلَحَ قَوْمٌ اشْتَرَوْا مَرْضَاةَ الْمَخْلُوقِ بِسَخَطِ الْخَالِقِ
⚪️ جو لوگ خالق کی ناراضگی کے ذریعہ مخلوق کی خوشی حاصل کریں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
كَتَبَ ابْنُ زِيَادٍ لَعَنَهُ اللَّهُ إِلَى الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمَّا بَعْدُ يَا حُسَيْنُ فَقَدْ بَلَغَنِي نُزُولُكَ بِكَرْبَلَاءَ وَ قَدْ كَتَبَ إِلَيَّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَزِيدُ أَنْ لَا أَتَوَسَّدَ الْوَثِيرَ وَ لَا أَشْبَعَ مِنَ الْخَمِيرِ أَوْ أُلْحِقَكَ بِاللَّطِيفِ الْخَبِيرِ أَوْ تَرْجِعَ إِلَى حُكْمِي وَ حُكْمِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَ السَّلَامُ.
فَلَمَّا وَرَدَ كِتَابُهُ عَلَى الْحُسَيْنِ ع وَ قَرَأَهُ رَمَاهُ مِنْ يَدِهِ ثُمَّ قَالَ لَا أَفْلَحَ قَوْمٌ اشْتَرَوْا مَرْضَاةَ الْمَخْلُوقِ بِسَخَطِ الْخَالِقِ۔
ابن زیاد لعنۃ اللہ علیہ نے امام حسین صلوات اللہ علیہ کو خط لکھ بھیجا:
اما بعد، اے حسین! مجھے خبر ملی ہے کہ کربلا میں وارد ہو چکے ہو، اور امیر المومنین یزید نے مجھے حکم دیا ہے کہ سر تکیے پر نہ رکھوں اور سیر ہوکر کھانا نہ کھاؤں جب تک کہ تمہیں قتل نہ کردوں یا تم میرا اور یزید بن معاویہ کا حکم نہ مان لو۔ والسلام
جس وقت اس کا یہ خط امام حسین علیہ السلام تک پہونچا، اسے پڑھا اور زمین پر پھنیک کر فرمایا: جو لوگ خالق کی ناراضگی کے ذریعہ مخلوق کی خوشی حاصل کریں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
📚 بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج۴۴، ص۳۸۳، باب۳۷، ما جرى عليه بعد بيعة الناس ليزيد بن معاوية إلى شهادته صلوات الله عليه
✍🏼 انسان کی زندگی میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں جہاں اسے دین کے خلاف جانے کی ترغیب ملتی ہے اور جھوٹی محبت اور سستی شہرت اسے اللہ کی رضا سے غافل بنا دیتی ہے۔
حق تو یہ ہے کہ ہم ہر لمحہ اپنے معبود کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں، دیکھیں کہ ہمارا پروردگار ہم سے راضی ہے یا نہیں؟ ہم نے اس کے لئے کیا کام کیا ہے؟ کون سا راستہ ہمیں اس کی طرف لے جاتا ہے؟ جو ہم بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں یا انجام دے رہیں ہیں آیا وہ اس کی خوشنودی کی خاطر ہے؟
حضرت سید الشہداء علیہ السلام اگر چاہتے تو یزید کے خلاف قیام نہ کرتے اور اپنی جان کی فکر کرتے، لیکن آپ علیہ السلام نے خدا کی راہ میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، اور اپنے قول و عمل سے سمجھایا کہ کامیابی یہ نہیں کہ انسان کسی بھی راستے سے عہدہ، منصب، اقبال، شہرت حاصل کرلے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لئے راہ راست سے ہٹ جائے؛ بلکہ کامیابی اس میں ہے کہ انسان خدا کی رضا میں قدم بڑھائے اور اپنے اصول پر قائم رہے اگرچہ اس صورت میں ظاہری مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے۔