#حضرت_باقر_العلوم_ع
✍🏼امام
ابوجعفر، باقر العلوم، امام پنجم حضرت محمد بن علی علیہما السلام نے بتاریخ 1/رجب المرجب 57ھ مدینہ منورہ میں دنیا
میں آنکھ کھولی، (1) آپ(ع) کا نام نامی محمد رکھا گیا، ابوجعفر آپ کی کنیت اور
باقر العلوم آپ کا لقب قرار پایا۔
#حضرت_باقر_العلوم_ع
✍🏼امام
ابوجعفر، باقر العلوم، امام پنجم حضرت محمد بن علی علیہما السلام نے بتاریخ 1/رجب المرجب 57ھ مدینہ منورہ میں دنیا
میں آنکھ کھولی، (1) آپ(ع) کا نام نامی محمد رکھا گیا، ابوجعفر آپ کی کنیت اور
باقر العلوم آپ کا لقب قرار پایا۔
آپ(ع) بھی دوسرے
ائمہ کی طرح پاک و پاکیزہ دنیا میں آئے اور پیدائش کے وقت آپ کی عظمت و جلالت کا
نور چھایا ہوا تھا۔
حضرت امام باقر
علیہ السلام ماں اور باپ دونوں طرف سے حضرت علی، حضرت زہرا اور پیغمبر اکرم علیہم
السلام سے نسبت رکھتے ہیں، اس لئے کہ آپ ع کے والد بزرگوار حضرت سید الشہداء علیہ
السلام کے بیٹے حضرت زین العابدین علیہ السلام تھے تو ماں امام حسن علیہ السلام کی
لخت جگر جناب ام عبد اللّہ (2) تھیں۔
حضرت امام باقر
علیہ السلام کی عظمت زبانزد خاص و عام تھی، جہاں کہیں بھی ہاشمی، علوی، اور
فاطمیوں کے مرتبے کی بات ہوتی، تو آپ کو عظمت، شجاعت اور قداست کے اکیلے وارث کے
عنوان دے دیکھا جاتا تھا، اور ان لوگوں کے بعد آپ ع ہی کو علوی، ہاشمی اور فاطمی
کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا۔
عظمت و جلالت
✍🏼حضرت
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے جلیل القدر صحابی حضرت جابر بن عبد اللہ
انصاری سے فرمایا: اے جابر! تم ابھی زندہ رہوگے یہاں تک کہ میرے بیٹے محمد بن علی
بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) سے ملاقات کروگے، جن کا نام توریت
میں باقر ہے، جب ان سے ملاقات کرنا تو میرا سلام پہوچا دینا۔
نبی اکرم ص دنیا
سے رخصت ہوگئے لیکن جناب جابر کو طویل عمر ملی۔۔۔ ایک دن وہ حضرت امام زین
العابدین علیہ السلام کے گھر تشریف لائے، اور امام باقر علیہ السلام کی زیارت کی
جو ابھی کمسن تھے، جناب جابر نے آپ ع سے کہا: میری طرف آئیے، امام آگئے، دوبارہ
کہا: واپس جائیے۔ امام واپس جانے لگے۔ جناب جابر نے امام ع کی رفتار اور قدموں کو
غور سے دیکھا اور کہا: رب کعبہ کی قسم آپ پورے طور سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کے
ہوبہو ہیں۔
اس کے بعد امام
سجاد علیہ السلام سے پوچھا: یہ کس کے صاحب
زادے ہیں؟ امام سجاد علیہ السلام نے بتایا: یہ میرے بعد کا امام، میرا فرزند (محمد
باقر) ہے۔
جناب جابر کھڑے
ہوگئے اور امام باقر علیہ السلام کے قدموں کا بوسہ لیا اور کہا: یابن رسول اللہ
میری جان آپ پر قربان، اپنے بابا رسول خدا(ص) کا سلام و درود قبول فرمائیے، جو
انہوں نے آپ کے لئے بھیجا ہے۔
حضرت امام باقر
علیہ السلام کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں، فرمایا: جب تک زمین و آسمان قائم ہیں میرے
بابا رسول خدا (ص) پر سلام و درود ہو، اور آپ پر بھی اے جابر کہ آپ نے ان کا سلام
مجھ تک پہونچایا (3)۔
علمی منزلت
✍🏼حضرت
امام باقر علیہ السلام بھی دوسرے ائمہ علیہم السلام کی طرح سرچشمۂ وحی سے متّصل
تھے، آپ (ع) کا نہ کوئی استاد تھا اور نہ ہی کسی بشر کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا،
ہاں! جابر ابن عبداللہ امام ع کی بارگاہ میں حاضر ہوا کرتے اور علم حاصل کیا کرتے
تھے، اور فرماتے تھے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو بچپنے میں علم الہی عطا کیا
گیا۔
عبد اللہ بن عطاء
مکی کہتے ہیں: میں نے ہرگز کسی کو اتنا زیادہ متواضع اور چھوٹا نہیں پایا جتنا حکم
بن عتیبہ امام باقر علیہ السلام کے سامنے ہوتے تھے جبکہ جب کہ وہ خود لوگوں کے
درمیان عظیم علمی منزلت رکھتے تھے، لیکن وہ امام(ع) کے سامنے اپنے معلم کے حضور
ایک بچے کی صورت تھے (4)۔
آپ(ع) کی منزلت
اور علمی جلالت کا یہ عالم تھا کہ جابر بن یزید جعفی روایت اخد کرتے ہوئے کہا کرتے
تھے: وصی الاوصیاء وارث علوم الانبیاء نے فرمایا۔۔۔(5)
کسی نے عبد اللہ
عمر سے مسئلہ پوچھا، وہ جواب نہ سکے اور سوال کرنے والے کو اشارہ کیا اور کہا کہ
اس بچے سے پوچھ لو اور مجھے بھی بتادینا، اس شخص نے امام علیہ السلام سے سوال کیا
اور اطمینان بخش جواب لیکر واپس لوٹا اور عبد اللہ عمر کو بھی بتایا۔ عبد اللہ نے
کہا: یہ اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو خدا سے علم لیتے ہیں(6)۔
ابو بصیر کہتے
ہیں: میں امام باقر علیہ السلام کے ساتھ مدینہ میں آیا، لوگوں کو رفت و آمد جاری
تھی، امام (ع) نے مجھ سے فرمایا: لوگوں سے پوچھو کیا وہ مجھے دیکھ رہے ہیں؟ میں نے جس سے بھی پوچھا کہ کیا ابوجعفر کو
دیکھا ہے، جواب، نہ میں ملا، جبکہ امام میرے پاس ہی کھڑے تھے۔ اسی اثناء میں آپ کا
ایک حقیقی چاہنے والا "ابو ہارون" جو کہ نابینا تھا مسجد میں وارد ہوا۔
امام(ع) نے فرمایا: اس سے بھی پوچھو۔
میں نے ابوہارون
سے سوال کیا: کیا ابو جعفر کو دیکھا ہے؟
فورا جواب دیا:
کیا تمھارے بغل میں نہیں کھڑے ہیں؟
میں نے کہا: تم
کو کیسے معلوم؟
انھوں نے جواب
دیا: مجھے کیسے معلوم نہ ہوں جبکہ وہ درخشاں نور ہیں؛ امام اس سے ایک افریقی شخص
کا حال دریافت کیا، اس نے کہا: جب میں وہاں سے چلا تھا تو وہ اچھی حالت میں تھے
اور آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے، آپ (ع) نے فرمایا: اب وہ دنیا سے جا چکا ہے،
اس نے کہا کب اور کیسے؟ جواب دیا: تمہارے وہاں سے نکلنے کے دو دن بعد(7)۔
اخلاقی عظمت
✍🏼شام
کا ایک شخص مدینہ میں رہتا تھا، امام(ع) کی خدمت میں کثرت سے آیا جایا کرتا تھا،
اور کہتا تھا: روئے زمیں آپ سے زیادہ کسی سے بغض عناد نہیں رکھتا، اور آپ اور آپ
کے خاندان سے زیادہ کسی کا دشمن نہیں ہوں! میرا عقیدہ یہ ہے تمہاری دشمنی میں ہی
خدا، نبی اور امیر المومنین کی اطاعت ہے، اگر دیکھتے ہو کہ میں تمہارے گھر بہت
زیادہ رفت و آمد رکھتا ہوں وہ اس لئے ہے کیونکہ تم بہترین، ادیب، خوش بیاں اور
خطیب ہو!
پھر بھی امام اس
سے مہربانی سے پیش آتے تھے، اور نرم لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ کچھ عرصہ نہیں گذرا
کہ وہ شامی بیمار ہوگیا، اور موت اس کی آنکھوں کے سامنے آگئی اور وہ زندگی سے
ناامید ہوگیا؛ اس نے وصیت کی کہ اگر وہ مر جائے تو ابو جعفر (امام باقر علیہ
السلام) ان پر نماز پڑھیں۔
آدھی رات گذری،
رشتہ داروں نے اس کے مرنے کا یقین کرلیا، صبح اس کا وصی مسجد آیا اور امام باقر
علیہ السلام کو دیکھا کہ نماز صبح کے بعد ذکر و تعقیبات میں مشغول ہیں، امام علیہ السلام ہمیشہ نماز کے بعد ذکر اور
تعقیبات پڑھا کرتے تھے۔ عرض کیا: وہ شامی شخص دیار ابدی کی طرف چل بسا اور اس کی
وصیت ہے کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں۔ امام (ع) نے فرمایا: ابھی اس کی موت نہیں
آئی ہے۔۔۔۔ جلدی نہ کرو، میں آتا ہوں۔
آپ (ع) اٹھے اور
تجدید وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی، دست دعا پلند کئے پھر سجدے میں گئے، اور سورج
کے طلوع ہونے تک سجدے میں رہے، اس کے بعد اس شامی کے یہاں گئے اور اس کے سرہانے
تشریف فرما ہوئے اور اسے آواز دی، اس نے جواب دیا، آپ نے اسے سہارا دیا اور اور
دیوار کا تکیہ لیکر بیٹھ گیا؛ امام میں شربت منگایا اور اسے دیا، اور رشتہ داروں
سے کہا کہ اسے ٹھنڈی غذا دیں۔ اور آپ (ع) واپس آگئے۔
اسے بہت جلد شفا
مل گئی اور وہ امام کے پاس آیا اور عرض کیا: " میں گواہی دیتا ہوں آپ لوگوں
پر حجت خدا ہیں۔۔۔(8)
محمد بن منکدر
(اپنے زمانے کے عظیم صوفی) کہتے ہیں: گرمیوں کے ایک دن میں مدینہ سے باہر گیا،
ابوجعفر (ع) کو دیکھا جو اپنے دو غلاموں یا دو اصحاب کے ساتھ اپنے کھیت سے واپس
آرہے ہیں، میں خود سے کہا: اتنی گرمی میں خاندان اہل بیت علیہم السلام کا ایک شخص
طلب دنیا میں لگا ہوا ہے! اسے ابھی نصیحت کرتا ہوں۔
میں ان کے قریب
گیا اور سلام کیا، امام (ع) کے سر اور چہرے سے پسینہ ٹپک رہا تھا، انھوں نے سخت
لہجے میں سلام کا جواب دیا۔ میں کہا: خدا آپ کو سلامت رکھے کیا آپ جیسی قریش کی
عظیم شخصیت کو یہ زیبا ہے کہ اس وقت اور اس عالم میں دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں،
اگر اس عالم میں موت آجائے کیا کریں گے؟
امام (ع) نے
فرمایا: خدا کی قسم اگر موت آجائے تو خدا کی طاعت میں مرونگا گا کیونکہ میں نے اس
طرح سے تم اور تم جیسے لوگوں سے خود کو بے
نیاز بنایا ہے، مجھے موت سے خوف اس وقت ہوتا
جب میں گناہ کررہا ہوتا۔
میں نے کہا: آپ
پر خدا کی رحمت ہو، میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو نصیحت کرونگا، آپ نے مجھے نصیحت کرڈالی (مجھے علم سے آگاہ
کیا) (9)۔
ایک چھوٹا سا مناظرہ
✍🏼عبد
اللّہ بن نافع حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا دشمن تھا اور کہا کرتا تھا: اگر
روئے زمیں پر کوئی مجھے قانع کردے کہ خوارج سے جنگ میں علی (ع) حق پر تھے تو میں
اس کی طرف جاؤنگا خواہ وہ شرق میں ہو یا غرب میں۔
عبد اللّہ سے کہا
گیا: کیا سمجھتے ہو اولاد علی (ع) میں سے بھی کوئی ثابت نہیں کرسکتا؟
اس نے کہا: کیا
ان کے بیٹوں کوئی عالم بھی ہے؟
کہتے ہیں: یہی تو
تیری پہلی نادانی کی واضح دلیل ہے! کیا ممکن ہے علی علیہ السلام کی اولاد میں کوئی
عالم نہ ہو؟!
اس نے پوچھا: آج
کل کون ہے، لوگوں نے امام باقر علیہ السلام کا نام لیا۔
وہ مدینہ آیا اور
امام سے ملاقات کی درخواست کی۔۔۔۔ امام نے غلام کو حکم دیا کہ اس سے کہو کہ کل
یہاں آئے۔
دوسرے دن عبد
اللّہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ امام علیہ السلام کی مجلس میں آیا، امام باقر علیہ
السلام بھی اپنے بیٹوں، بعض مہاجرین و انصار کو جمع کیا، آپ (ع) نے حمد و ثنائے
الہی کے بعد فرمایا: اے مہاجرین و انصار کے فرزندان! تمہارے ذہنوں میں جو علی بن
ابی طالب (ع) کی فضیلت ہے بیان کرو۔
لوگوں نے بیان
کرنا شروع کیا یہاں تک کہ حدیث خیبر تک بات پہونچی، کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم نے فرمایا: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ
وَ رَسُولَهُ وَ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ كَرَّاراً غَيْرَ فَرَّارٍ لَا
يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَى يَدَيْه
کل میں پرچم اس
کو دونگا جو خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے، اور خدا و رسول بھی اس کو دوست رکھتے
ہیں، جو کرار و غیر فرّار ہے، وہ اس وقت تک میدان جنگ سے واپس نہیں آئے گا یہاں تک
کہ خدا اس کے ہاتھوں سے یہودیوں پر فتح دلائے گا۔
اور پھر دوسرے دن
پرچم کو امیر المومنین علیہ السلام کے حوالے کردیا، اور انہوں حیران کن جنگ میں یہودیوں کو پسپا
کردیا اور انکے عظیم قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔
امام باقر علیہ
السلام نے عبد اللّہ بن نافع سے فرمایا: اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
اس نے کہا حدیث
تو صحیح ہے، لیکن بعد میں کافر ہوگئے تھے اور انہوں نے خوارج کو ناحق قتل کیا!
امام (ع) نے
فرمایا: تیری ماں ترے ماتم میں بیٹھے، جب خدا انہیں دوست رکھتا تھا وہ جانتا تھا
کہ علی (ع) خوارج کا قتل کریں گے یا نہیں جانتا تھا؟ اگر کہتے ہو خدا نہیں جانتا
تھا کافر ہوجاؤگے۔
اس نے کہا: خدا
جانتا تھا۔
امام(ع): خدا
انہیں اس لئے دوست رکھتا تھا کہ وہ فرمانبردار اور اطاعت گزار تھے یا ان کی
نافرمانی اور گناہ کی بنا پر؟
اس نے کہا: کیوں
کہ خدا کے فرمانبردار تھے اس لئے۔ (یعنی اگر خدا جانتا کہ وہ گناہ کریں گے تو ہرگز
دوست نہ رکھتا اس کا مطلب یہ ہے کہ خوارج کا قتل اطاعت خدا میں ہوا)
فرمایا: اٹھ جاؤ
کہ ہار چکے ہو، اب کوئی جواب تیرے پاس نہیں۔
عبد اللّہ اٹھا
جبکہ اس آیت کی تلاوت کررہا تھا: حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ
مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر
اس کا اشارہ یہ
تھا کہ حق سفیدی صبح کی طرح آشکار ہو گیا۔ ِ
اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَه
اور کہا: خدا
بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں رکھے (10)۔
امام باقرعلیہ السلام علمائے اہل سنت کی نظرمیں
عبداللہ بن عطا
مکی:
میں علماء کو
محمد بن علی کے علاوہ کسی کے سامنے اسقدر ادب و احترام کو نہیں دیکھا، میں نے حکم
بن عتیبہ کو دیکھا جو اپنی قوم میں میں تمام تر عظمت اور بزرگی کے باوجود امام
باقر کے سامنے اس طرح طرح بیٹھے ہوئے تھے جیسے کوئی بچہ اپنے استاد کے حضور میں بیٹھا
ہے۔ (11)
محمد بن طلحہ
شافعی:
وہ علوم کو جمع
کرنے اور نشر کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے علم کو آشکار کیا اور لوگون کے درمیان
اس کا پرچم لہرایا۔ انہوں نے پوری عمر کو خدا کی اطاعت سے آباد رکھا اور مقام تقوی
اور پرہیزگاری میں ثابت قدم تھے۔ (12)
ابن ابی الحدید
معتزلی:
وہ حجاز کے فقہاء
کے سردار تھے، لوگوں نے آپ اور آپ کے فرزند جعفر سے فقہ حاصل کی ہے۔ (13)
ابن صباغ مالکی:
انکے اندر علم،
فضیلت، امامت، سیادت اور سروری جیسی فضیلتیں پائی جاتی تھیں اسکے علاوہ خاص و عام
میں اپنی جود و سخا سے پہچانے جاتے تھے، اور تمام لوگوں میں انکی سخاوت زباں زد تھی۔
(14)
ابن خلقان:
انکا لقب باقر ہے
اور شیعوں کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں، وہ ایک ایسے عالم تھے عظمت اور سیادت کے
مالک تھے۔ (15)
ابن حجر:
وہ وارث زین
العابدین ہیں جنہوں نے علم، تقوی اور عبادت وراثت میں پائی تھی، وہ علم جمع کرنے
والے نشر کرنے والے اور اس کا پرچم لہرانے والے تھے۔ ان قلب پاک، علم و عمل مطہر،
انکی روح ہر طرح کی پلیدگی سے مبرہ اور منزہ تھی، انکی پوری عمر خدا کی اطاعت سے
آباد رہی۔ (16)
علامہ شیخ اسماعیل
دمشقی:
امام باقر عظیم
المرتبت اور شہرہ آفاق شخصیت تھی، اس قدر کہ اس زمانے میں ان کے مانند کسی سے علم
دین، خدا کی سنت اور اس کی معرفت نہیں دیکھی گئی، دین کے بزرگ علماء اور تابعین کے
ائمہ ان کے شاگرد رہے ہیں۔ (17)
علامہ خوارزمی:
ابوحنیفہ امام
باقر کے شاگرد تھے اور ان سے روایت کیا کرتے تھے۔ (18)
سبط ابن جوزی:
امام باقر اہل مدینہ
کے تابعین کے طبقہ سوم میں سے ہیں، وہ عالم اور عابد اور ثقہ تھے کہ ابوحنیفہ اور
دوسروں نے جن کی شاگردی کی ہے اور ان سے روایت کیا کرتے تھے۔ (19)
شہادت امام پنجم
حضرت امام باقر
علیہ السلام 7 ذی الحجہ 114ھ )الكافي (ط - الإسلامية)ج1، ص472) میں ہشام بن عبد
الملک کے ہاتھوں زہر دغا سے شہید ہوئے۔ یہاں پر کیفیت شہادت کے سلسلہ میں روایات
مختلف ہیں لیکن یہ بات واضح اور مسلم ہے کہ امام باقر علیہ السلام ہشام بن عبد
الملک کے ذریعہ بہت ہی مخفیافہ طور پر مسموم ہوئے ہیں۔
بعض لوگوں لکھا
ہے کہ امام باقر علیہ السلام کو ابراہیم بن ولید بن یزید بن عبدالملک نے زہر دیا۔ (20)
بعض مؤرخوں نے
لکھا ہے کہ ہشام کے حکم سے زید بن حسن نے زہر کو گھوڑے کی زین پر مل دیا اور گھوڑے
کو امام کے پاس لایا اور اصرار کیا کہ آپ(ع) اس پر سوار ہوں، امام(ع) مجبورہوکر
اس پر سوار ہوئے اور زہر آپ(ع) کے جسم میں سرایت کرگیا۔ اس طرح کہ آپ کی رانوں
پر ورم آگیا چند روز کرب و تکلیف میں بستر علالت پر رہے آخرکار شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ (21)
امام محمد
باقر(ع) جنت البقیع میں اپنے والد کے چچا امام حسن مجتبی علیہ السلام اور والد
امام زین العابدین علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔ (22)
امام باقر(ع) کی بارگاہ میں
محب اہل بیت علیہم
السلام
يَا جَابِرُ أَ
يَكْتَفِي مَنِ انْتَحَلَ التَّشَيُّعَ أَنْ يَقُولَ بِحُبِّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ
فَوَ اللَّهِ مَا شِيعَتُنَا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَ أَطَاعَه
اے جابرجو شیعہ
ہونے کا دعوی کرتے ہیں کیا ان کے لئے یہی کافی ہوگا کہ کہیں ہم اہل بیت کے دوستدار
ہیں؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ کوئی نہیں ہے سوائے اس کے جو اللہ کا تقوی اختیار کرے
اور اس کی اطاعت کرے۔ (23)
ذکر
ذِكْرُ
اللِّسَانِ الْحَمْدُ وَ الثَّنَاءُ وَ ذِكْرُ النَّفْسِ الْجَهْدُ وَ الْعَنَاءُ
وَ ذِكْرُ الرُّوحِ الْخَوْفُ وَ الرَّجَاءُ وَ ذِكْرُ الْقَلْبِ الصِّدْقُ وَ
الصَّفَاءُ وَ ذِكْرُ الْعَقْلِ التَّعْظِيمُ وَ الْحَيَاءُ وَ ذِكْرُ
الْمَعْرِفَةِ التَّسْلِيمُ وَ الرِّضَاءُ وَ ذِكْرُ السِّرِّ الرُّؤْيَةُ وَ
اللِّقَاءُ.
زباں کا ذکر حمد
وثناء ہے، نفس کا ذکر کوشش اور سختیاں برداشت کرنا، اور روح کا ذکر خوف اور امید
ہے اور قلب کا ذکر صدق و صفا ہے اور عقل کا ذکر تعظیم اور حیا ہے، معرفت کا ذکر
تسلیم و رضا ہے، باطنی اور خفیہ ذکر مشاہدہ اور ملاقات ہے۔ (24)
پاکدامنی
قَالَ لَهُ
رَجُلٌ إِنِّي ضَعِيفُ الْعَمَلِ قَلِيلُ الصَّلَاةِ قَلِيلُ الصَّوْمِ وَ
لَكِنْ أَرْجُو أَنْ لَا آكُلَ إِلَّا حَلَالًا وَ لَا أَنْكَحَ إِلَّا حَلَالًا
فَقَالَ وَ أَيُّ جِهَادٍ أَفْضَلُ مِنْ عِفَّةِ بَطْنٍ وَ فَرْج
امام سے کسی نے
عرض کیا کہ میں عمل میں کمزور ہوں نماز کم پڑھتا ہوں روزہ کم رکھتا ہوں لیکن کوشش
کرتا ہوں حلال کے علاوہ نہ کھاؤں اور حلال کے سوا نکاح نہ کروں۔ آپ نے فرمایا پیٹ
اور شرمگاہ کی پاکیزگی سے بہتر کون سا جہاد ہوگا۔
(25)
جہاد
۔۔لَا فَضِيلَةَ
كَالْجِهَادِ وَ لَا جِهَادَ كَمُجَاهَدَةِ الْهَوَى۔۔۔
۔۔۔جہاد جیسی کوئی
فضیلت نہیں اور خواہش نفس سے جہاد جیسا کوئی جہاد نہیں۔ (26)
عالم کی فضیلت:
عَالِمٌ
يُنْتَفَعُ بِعِلْمِهِ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِينَ أَلْفَ عَابِد
جس عالم کے علم
سے فائدہ حاصل کیا جائے وہ ستر ہزار عابدوں سے افضل ہے۔ (27)
عالم کون؟
لَا يَكُونُ
الْعَبْدُ عَالِماً حَتَّى لَا يَكُونَ حَاسِداً لِمَنْ فَوْقَهُ وَ لَا
مُحَقِّراً لِمَنْ دُونَهُ.
جو شخص بڑے سے
حسد کرے اور اپنے سے چھوٹے کی تحقیر کرے وہ عالم نہیں ہوسکتا۔ (27)
مومن مومن سے بے نیاز نہیں
قَالَ يَوْماً
رَجُلٌ عِنْدَهُ اللَّهُمَ أَغْنِنَا عَنْ جَمِيعِ خَلْقِكَ فَقَالَ أَبُو
جَعْفَرٍ ع لَا تَقُلْ هَكَذَا وَ لَكِنْ قُلِ اللَّهُمَّ أَغْنِنَا عَنْ شِرَارِ
خَلْقِكَ فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَسْتَغْنِي عَنْ أَخِيه
ایک دن کسی نے
کہا: بارالہا ہمیں تمام لوگوں سے بے نیاز کردے آپ نے فرمایا ایسا نہ کہوں بلکہ
کہو خدایا ہمیں بری مخلوقات سے مستغنی بنادے اس لئے کہ مومن اپنے بھائی سے بے نیاز
نہیں ہوسکتا۔(28)
📚📚حوالے:
(1) مصباح
المتهجد و سلاح المتعبد، ج2، ص801، أول يوم من رجب؛ المصباح للكفعمي (جنة الأمان
الواقية)، ص512، رجب
(2) مناقب آل أبي
طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج4، ص 208، فصل في معالي أموره ع
(3) الأمالي(
للصدوق)، ص353، المجلس السادس و الخمسون
(4) الإرشاد في
معرفة حجج الله على العباد، شیخ مفید، ج2، ص160، فصل في ذكر فضائل الإمام الباقر
ع؛ إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، طبرسی، ص269، الفصل الرابع في ذكر طرف
من مناقبه و خصائصه
(5) الإرشاد في
معرفة حجج الله على العباد، شیخ مفید، ج2، ص160، فصل في ذكر فضائل الإمام الباقر
ع؛ تاج المواليد، طبرسى، ص91، الفصل الثاني: في بعض مناقبه
(6) مناقب ابن
شہر آشوب، ج۳، ص۳۲۹
(7) الخرائج و
الجرائح، راوندى، ج2، ص595، فصل في أعلام الإمام محمد بن علي بن الحسين
الباقر ع
(8) الأمالي
(للطوسي)، ص410، المجلس الرابع عشر؛ إثبات
الهداة بالنصوص و المعجزات، شيخ حر
عاملى، ج4، ص103، الفصل الرابع
(9) الإرشاد في
معرفة حجج الله على العباد، شیخ مفید، ج2، ص161، فصل في ذكر فضائل الإمام الباقر
ع
إعلام الورى
بأعلام الهدى (ط - القديمة)، طبرسى، ص269، الفصل الرابع في ذكر طرف من مناقبه
(10) الكافي (ط -
الإسلامية)، كلينى، ج8، ص349، حديث إسلام علي ع؛ مرآة العقول في شرح أخبار آل
الرسول، مجلسى، ج26، ص513، حديث548
(11) روض الریاحین،
یافعی، ص57 ط قاہرہ؛ حلیۃ الاولیاء، ابونعیم اصفہانی، ج3، ص185۔
(12) مطالب السوول، ص80؛ صاعق
محرقہ، ص306
(13) حلیۃ الاولیاء، ج3، ص180۔
(14) الفصول المہمہ، ص201۔
(15) وفیات الاعیان، ج3، ص314۔
(16) الصواعق محرقۃ، ص305۔
(17) الروضۃ الندبہ، ص12 ط الخیریہ مصر۔
(18)جامع مسانید ابی حنیفہ، ج2، ص349 ط حیدر آباد۔
(19) تذکرۃ الخواص، ص347
(20) سبائک الذهب،ص74؛ دلائل الامامه،ص94؛ مناقب ابن شهر آشوب،ج4،ص210،
الفصول المهمه،ص220؛ الانوار البهیه،ص126۔
(21) الخرائج و الجرائح، راوندى،ج2،ص604؛ مدینه المعاجز،ص349؛
بحار،ج46، ص329؛مستدرک الوسائل،ج2،ص211۔
(22) فرق الشیعہ 61، اصول کافی 2/372، ارشاد مفید 2/156، دلائل
الامامہ ص216، اعلام الوری 259، کشف الغمہ 2/327، تذکرة الخواص 306، مصباح کفعمی
691،
(23) الكافي (ط - الإسلامية)،ج2،ص74؛ وسائل الشيعة، ج15، ص234۔
(24) روضة الواعظين و بصيرة المتعظين (ط - القديمة)، ج2، ص390؛ مشكاة
الأنوار،ص55؛ مستدرك الوسائل،ج5، ص397۔
(25) المحاسن،ج1،ص292۔
(26)تحف العقول،ص286؛ الوافي،ج26،ص262؛ بحارالأنوار (ط -
بيروت)،ج75،ص165۔
(27)تحف العقول، ص294؛ بصائر الدرجات، ج1،ص6؛ كافي (ط - دار
الحديث)،ج1،ص79؛ وسائل الشيعة،ج16، ص347۔
(28)تحف العقول، ص293؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج75،ص172۔