#بہترين_زاد_آخرت
🌷🌷 حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
🔴 لا خَيْرَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَزْوَادِهَا إِلَّا التَّقْوَىٰ
🔵 دنیا کے کسی بھی زاد راہ میں خیر و برکت نہیں ہے سوائے زادِ تقوی کے.
📚نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص165، خ111، و من خطبة له ع في ذم الدنيا
▫️▫️▫️▫️▫️
✍🏼 امام علیہ السلام جنگ صفین سے واپسی پر جب کوفہ کے دروازے پر پہونچتے ہیں، تو مسلمانوں کے قبرستان کے پاس ٹھہر جاتے ہیں، مرنے والوں کی روحوں کے لئے دنیا کے واقعات بیان کرتے ہیں! پھر ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لوگوں کے لئے وہ عالمِ آخرت کے بارے میں بتائیں! آپ علیہ السلام اپنے اصحاب کی حیرت و تعجب کے وقت فرمایا: «أَمَا [وَ اللَّهِ] لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلَامِ لَأَخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوىٰ؛ اگر انہیں بولنے کی اجازت مل جاتی تو وہ تمہیں بتاتے کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے»۔ [نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص492، حکمت130] درحقيقت دونوں روایتیں اور اس طرح کی دیگر روایات اس آیت شریفہ سے ماخوذ ہیں: (تَزَوَّدُوا فَاِنَّ خَيْرَ الزّادِ التَّقْوى); « اپنے لئے زادِ راہ فراہم کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے»۔ [سوره بقره/197]
⚪️ قدیم زمانے میں سفر کے لئے زادِ راہ کی بڑی اہمیت تھی؛ دور حاضر کے بر خلاف کہ آج اس کی زیادہ اہمیت نہیں رہ گئی۔ پہلے مسافرین دیار بدیار شہر بشہر کھانے پینے کا ساز و سامان لے جایا کرتے تھے جسے زاد و توشہ کہا جاتا ہے۔
📌 زاد و توشہ میں تین خصوصیات ہونا چاہئے:
1️⃣ وزن کم ہو.
2️⃣ قوّت زیادہ ہو.
3️⃣ خراب نہ ہو۔
📍 مذکورہ آیت اور دونوں روایتوں میں دنیا کی تشبیہ اس منزل سے دی گئی ہے جہاں پر لوگ مسافر کی طرح آتے ہیں اور کچھ دن قیام کرتے ہیں اور زادِ راہ اٹھاتے ہیں اور اپنے سفر پر نکل پڑتے ہیں، پھر تقویٰ کو اس زاد راہ کے عنوان سے بیان کیا گیا جس میں تینوں خصوصیت موجود ہیں۔ حقیقت میں تقویٰ جہاں کہیں بھی ہو اسے آباد کر دیتا ہے اور جہاں پر وہ نہ ہو وہ جگہ ویران خانہ بن جاتی ہے۔ بیشک غلط کاموں سے روکنے کے لئے پلیس انتظامیہ اور لوگوں کی روک ٹوک ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔ اصل و بنیادی کردار تو اندرونی پولیس اور تقویٰ کا ہوتا ہے۔ جس چیز نے آٹھ سال کی طاقت فرسا اور ظالمانہ جنگ پر ملّت ایران کو کامیاب کیا اور سارے عالم کی نگاہوں میں عظمت اسلام کو دوبالا کیا وہ جاں بازوں کا تقوی تھا۔ ہمیں اس عظیم سرمایہ سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔
🟣 حضرت امام صادق عليہ السلام سے آيت شريفہ (يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَ لا بَنُونَ اِلاّ مَنْ اَتَى اللهَ بِقَلْب سَليم); «اس دن مال و اولاد کام نہیں آئے گی، سوائے یہ کہ جو قلب سلیم کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں پہونچے» [سوره شعراء/88 و 89] کے بارے میں سوال ہوا، فرمایا: «قلب سليم وہ قلب ہے جو خدا سے ملاقات کرے جبکہ اس میں کوئی بھی غیر خدا نہ ہو » [تفسير نمونه، ج15، ص274] اور غیر خدا نہ ہونے کا ثمرہ تقوی ہے؛ جی ہاں تقوی میوہ قلب سلیم ہے۔
📚 110سرمشق از سخنان حضرت علی علیہ االسلام ، حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ، ص99.