#شہادت_امام_سجاد_علیہ_السلام
سلسلہ امامت کی چوتھی کڑی
یعنی حضرت امام علی بن الحسین علیہما السلام
جنکو دنیا سجّاد اور زین العابدین جیسے القاب سے جانتی پہچانتی ہے۔
واقعۂ کربلا سے دور
امامت کا آغاز ہوتا ہے، ظالموں کے ظلم و ستم سہتے ہوئے، مصائب کی انتہا برداشت
کرتے ہوئے حسینی پیغام کو عام کرنے، دین اسلام کو ظلم و ستم، جہالت، ضلالت و بدعت
جیسی افتاد سے بچانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، کوفہ و شام میں فصیح و بلیغ کلمات و
خطبات کے ذریعہ ظالم کے چہرے سے نقاب ہٹانا شروع کرتے ہیں، علی و آل علی علیہم
السلام سے دشمنی کے مرکز "مسجد جامع" دمشق ہی سے ایسا خطاب کرتے ہیں کہ
نام علی ع کانوں میں رس گھولنے لگے، فطرت انسانی مجذوب کردگار ہوجائے، یزید مات و
مبہوت ہاتھ ملتا رہے، اور اسے اپنے ہی مجمع میں رسوائی کا منھ دیکھنا پڑے۔
آپ ع کے دور امامت میں یزید
بن معاویہ، معاویہ بن یزید، مروان بن حکم، عبد الملک بن مروان اور ولید بن عبد
الملک کی حکومت رہی، ایسے سیاسی حالات کہ آپ کے ہر ہر قدم پر حکومتی گماشتوں کی
نظر ہو، ایسے سخت دور میں امّت کی رہبری، بدعتوں کا قلع قمع اور گمراہ کن عقائد کی
نشاندہی کی ذمہ داری آپ کے دوش پر تھی۔
لہذا غریب گھرانوں اور
کنبوں کی پرورش، غلاموں کی تربیت، گریہ و زاری اور یاد کربلا کے ذریعہ پیغام حسینی
کی اشاعت کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے الہی معارف اور خالص عقائد و
احکام کے بیان کے ذریعہ خدا اور دین خدا کی جانب امّت کو راغب بنانے کے لئے دعا
اور مناجات کا سہارا لیتے ہیں، جو دعائیں اس زمانے کے حالات کی جانب اشارہ بھی
کررہی تھیں اور تشنگان علم و معرفت کی سیرابی کا ذریعہ بھی بن رہی تھیں، ان دعاؤوں
کے ذریعہ ایسا مجموعہ تیار ہوا جسے صحیفۂ سجادیہ کہا جاتا ہے اور زبور آل محمد ص
جیسے خوبصورت نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ شاہکار جس کی قرآن اور نہج البلاغہ کے
بعد کوئی نظیر نہیں، جس کی تابانیاں آج بھی عالم اسلام کی چمک دمک میں اضافہ فرما
رہی ہیں، اور علماء، فقہاء، سیر و سلوک پر گامزن، عرفان کی وادی میں قدم رکھنے
والوں، تشنگان علم و حکمت کے لئے مبدأ فیض بنی ہوئی ہیں۔
اسکے علاوہ رسالۃ الحقوق
کے نام سے معروف تربیتی اور اخلاقی مجموعہ بھی آپ ع کے آثار میں سے ہے جس میں خدا،
بندوں اور خود کے لحاظ سے انسان کی ذمہ داریوں کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔
ظالم و جابر حکومتوں، شیعیان
اہل بیت علیہم السلام پر شدید نگرانی، بے رحمانہ قتل و غارتگری، مختلف تحریکوں کی
سرکوبی، سماج کی بے دینی، نیز حقیقی مجاہدین کے فقدان جیسے اسباب کی وجہ سے آپ ع
نے مختلف طرز تبلیغ، نئے طریقۂ مجاہدت سے اسلام کی تبلیغ فرمائی اور امّت مسلمہ کی
رہنمائی کا کام انجام دیا۔
روایات کے مطابق ۲۵/محرم الحرام۹۴ یا ۹۵ھ وہ غمناک تاریخ ہے جب ولید بن عبد الملک کے ذریعہ زہر سے
مسموم ہوئے اور ۵۷ سال کی عمر
میں شہادت پائی۔
مدینۃ الرسول میں کہرام
مچ گیا، تشیع جنازہ کے لئے مسجد میں ایسا مجمع کہ شاید ہی کبھی مدینہ نے دیکھا ہو۔
حضرت امام باقر علیہ
السلام نے آپ کو غسل و کفن دیا اور جنّت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السلام کے
قریں سپرد لحد کیا۔
📚عوالم العلوم
و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار و الأقوال، بحرانى اصفهانى، ج18-السجادع، ص301
⬛️⬛️⬛️⬛️⬛️⬛️⬛️⬛️⬛️⬛️⬛️
السَّلامُ عَلَيْكَ
يَا زَيْنَ العَابِدِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا زَيْنَ المُتَهَجِّدِينَ،
السَّلامُ عَلَيْكَ يَا إِمَامَ المُتَّقِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا دُرَّةَ
الصَّالِحِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَلِيَّ المُسْلِمِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ
يَا قُرَّةَ عَيْنِ النَّاظِرِينَ العَارِفِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا خَلَفَ
السَّابِقِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَصِيَّ الوَصِيِّينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ
يَا خَازِنَ وَصَايَا المُرْسَلِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ضَوْءَ المُسْتَوْحِشِينَ،
السَّلامُ عَلَيْكَ يَا نُورَ المُجْتَهِدِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سِرَاجَ
المُرْتَاضِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ذُخْرَ المُتَعَبِّدِينَ السَّلامُ
عَلَيْكَ يَا مِصْبَاحَ العَالَمِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَفِينَةَ العِلْمِ،
السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَكِينَةَ الحِلْمِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مِيزَانَ
القَصَاصِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَفِينَةَ الخَلاصِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا
بَحْرَ النَّدَى، السَّلامُ عَلَيْكَ بَدْرَ الدُّجَى، السَّلامُ عَلَيْكَ
أَيُّهَا الأَوَّاهُ الحَلِيمُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُهَا الصَّابِرُ
الحَكِيمُ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَئِيسَ البَكَّائِينِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا
مِصْبَاحَ المُؤْمِنِينَ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلايَ يَا أَبَا مُحَمِّدٍ،
أَشْهَدُ أَنَّكَ حُجَّةُ اللَّهِ، وَابْنُ حُجَّتِهِ، وَأَبُو حُجَجِهِ وَابْنُ أَمِينِهِ،
وَأَبُو أُمَنَائِهِ، وَأَنَّكَ نَاصَحْتَ فِي عِبَادَةِ رَبِّكَ، وَسَارَعْتَ فِي
مَرْضَاتِهِ، وَخَيَّبْتَ أَعْدَاءَهُ، وَسَرَرْتَ أَوْلِيَاءَهُ، أَشْهَدُ
أَنَّكَ قَدْ عَبَدْتَ اللَّهَ حَقَّ عِبَادَتِهِ، وَاتَّقَيْتَهُ حَقَّ
تُقَاتِهِ، وَأَطَعْتَهُ حَقَّ طَاعَتِهِ حَتَّى أَتَاكَ اليَقِينُ، فَعَلَيْكَ
يَا مَوْلايَ يَا بْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَفْضَلُ التَّحِيَّةِ، وَالسَّلامُ
عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ.
📚بحار الأنوار
(ط - بيروت)، محمد باقر مجلسى، ج99، ص223.