علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

جمعرات، 5 مارچ، 2020

حضرت امام جواد علیہ السلام


ولادت_امام_تقی_ع


       آٹھویں امام حضرت علی الرضاعلیہ السلام 40 برس سے زیادہ ہوگئے تھے۔۔۔ لیکن ابھی تک کوئی امامت کا وارث دکھائی نہیں پڑرہا ہے  اور کوئی آثار بھی نہیں۔

      حسن بن بشار کہتے ہیں:  حسن بن قیاما (جو واقفی مسلک سے تعلق رکھتا تھا)  نے مجھ  سے کہا  کہ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں شرفیابی کی  اجازت حاصل کروں، میں نے  اجازت لی، جب امام(ع) کی خدمت میں پہوچا، اس نے کہا: کیا آپ امام ہیں؟  حضرت رضا علیہ السلام نے فرمایا: ہاں۔  اس نے کہا:  میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام نہیں ہیں۔
امام علیہ السلام نے سوال کیا: تمہیں کہاں سے معلوم کہ میں امام نہیں؟! کہا: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے: امام عقیم نہیں ہوتا اور آپ کا اتنا سن ہوگیا اور ابھی صاحب اولاد نہیں۔
امام رضا علیہ السلام نے سر کو آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا: بارالہا! میں تجھے اپنا گواہ بناتا ہوں کہ زیادہ دن نہیں ہونگے  کہ  تو مجھے ایک فرزند عنایت کرے گا کہ جو زمیں کو عدل و انصاف سے بھر دیگا جیساکہ وہ ظلم و جور سے پر ہے۔ (1)



     اور پھر۔۔۔۔ وہ وقت آن پہونچا ۔۔۔۔یعنی (بعض کے مطابق 10 یا 15 رمضان المبارک )(2)  10/رجب المرجب (3)  195ھ میں باغ رسالت و امامت کا ایک ایسا سدا بہار پھول کھلا جو ابھی تک مشام حیات کو معطر کئے ہوئے ہے۔۔۔

     حضرت امام تقی علیہ السلام حضرت امام باقر علیہ السلام کی کنیت’’ابوجعفر‘‘ سے یاد کیے جاتے تھے، آپ(ع) کی مادر گرامی  ’’نوبہ‘‘کے لوگوں اور ’’ماریہ قبطیہ‘‘ کے خاندان سے تھیں۔ ان کا نام ’’سبیکہ‘‘  تھا لیکن امام رضا علیہ السلام نے آپ کا نام ’’خیزران‘‘ رکھا(4)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے ان پاکدامن خاتون کو ’’ بہترین پاک طینت کنیزوں‘‘ کے عنوان سے یاد کیا ہے، اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا: ’’وہ ام ولد ہیں اور پاک و پاکیزہ پیدا ہوئیں، ’ام جواد‘ اور ’ام حسن‘ کے نام سے معروف اور اپنے زمانے کی بہتریں خواتین میں سے تھیں۔(5)

     حضرت امام جواد علیہ السلام بھی اپنے اجداد بزرگوار کی طرح،  متعدد القاب سے یاد کیے گئے، جن میں سے ہر ایک لقب آپ کی والامقام شخصیت کی ترجمانی کررہا ہے: جواد، تقى، قانع، مرتضى، نجيب، منتجب، متقى، زكى، متوكل، مرتضى، المختار، عالم جیسے القاب سے ملقب تھے۔(6) جن میں جواد اور تقی کو خاص شہرت حاصل تھی۔

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

      جب امام رضا علیہ السلام کا سن مبارک تقریبا چالیس برس کا ہوگیا  اور ابھی آپ صاحب اولاد نہ ہوئے تھے جنہیں آپ(ع) اپنے بعد کے امام کے طور پر پیش فرمائیں، یہاں تک کہ یہ سوال شیعوں کے ذہنوں میں اتر چکا تھا، کبھی کبھی یہ سوالات آپ (ع) تک بھی پہونچتے بھی تھے، امام رضا علیہ السلام نے اپنے فرزند امام تقی علیہ السلام کی ولادت سے پہلے ایک صحابی کے جواب میں فرمایا:’’ والله لا تمضی الایام واللیالی حتی یرزقنی الله ولدا ذکرا یفرق به بین الحق و الباطل‘‘ خدا کی قسم کچھ ہی دنوں میں پرودگار مجھے ایک بیٹا عطا کریگا اور اس کے ذریعہ حق و باطل میں فاصلہ کریگا۔(7)

      آپ (ع) نے حضرت امام جواد علیہ السلام کی ولادت پر خوشی کے عالم میں فرمایا: ’’ میرا ایسا بیٹا دنیا میں آیا ہے جو موسی بن عمران کے مثل ، دریا میں راستہ بنانے والا، اور عیسی بن مریم کی طرح ہے، اس کی ماں ایک مقدس خاتون ہے جس نے ایسا بیٹا دیا‘‘ (8)

      اسی طرح دوسری جگہ اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ یہ ابوجعفر ہے، میں نے خدا کے اذن سے اسکو امام اور اپنا جانشین مقرر کیا ہے‘‘(9)

علمی شخصیت:


      امامت کا حقدار وہ ہوتا ہے جو اپنے  زمانے کا سب سے زیادہ جاننے والا، احکام الہی اور شریعت کے سلسلہ میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو؛ اسی طرح  سیاست اور قیادت میں لائق و فائق، لوگوں کی سماجی اور مذہبی ضررتوں کو پورا کرنے میں ممتاز ہو۔ اور امام جواد علیہ السلام کے علاوہ ایسا کون ہو سکتا تھا؟! کیونکہ آپ اپنے اجداد کی طرح اپنے زمانے کی بے مثل اور ممتاز شخصیت تھے۔  لہذا آپ نے کمسنی کے عالم میں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ آپ (ع) نے اس وقت علماء اور فقہاء کے لاینحل اور بہت ہی سخت علمی اور شرعی سوالوں  کا  جواب دیا ۔ اس زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے علمی مناظروں کے سبب مذہب اہل بیت علیہم السلام  کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا  اور لوگوں کی مشتاق نگاہوں نے آپ (ع) کا استقبال کیا جس کی بنیاد پر کئی علماء و  فقہاء نے اپنے گذشتہ عقیدہ و مذہب  سے روگردانی اختیار کرتے ہوئے اصل امامت کو قبول فرمایا۔(10)

      ابو جعفر، محمد بن علی بن موسی الرضا علیہ السلام مسجد نبوی میں تشریف لائے، حضرت امام رضا علیہ السلام کے عم محترم علی بن جعفر نے جب آپ کو دیکھا، پابرہنہ اور بغیر عبا کے آپ(ع) کی طرف تیزی سے
آئے اور دست مبارک کا بوسہ لیا اور بہت احترام سے پیش آئے۔ ابوجعفر (امام جواد علیہ السلام) نے فرمایا: ’’ عموجان! خدا آپ پر رحمت نازل فرمائے، تشریف رکھیے!‘‘

      علی بن جعفر نے فرمایا: ’’ میرے آقا، جب کہ آپ (ع) کھڑے ہیں ، میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں؟‘‘  جب علی بن جعفر اپنی جگہ واپس آگئے، ان کے ساتھیوں نے کہا: ’’آپ ان کے والد کے چچا ہیں، پھر بھی آپ ان سے اس طرح سے پیش آتے ہیں؟!‘‘ علی بن جعفر نے جواب دیا: خاموش رہو۔ اس کے بعد اپنے محاسن مبارک پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ’’ جب کہ خدائے عزوجل نے  اس سفید داڑھی کو امامت کے لائق نہ جانا اور اس جوان کو ایسی لیاقت عطا کی اورمنصب سے نوازا، میں اس کی عظمت اور برتری کا انکار کروں؟! میں ان کا غلام ہوں اور تمھارے اس طرح سے کہنے سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔(11)

      جس وقت مامون نے ارادہ کیا کہ اپنی بیٹی کو امام محمد تقی (ع) کی زوجیت میں دے، بنی عباس نے اس پر اعتراض کیا۔ مامون نے دلیل بیان کی: ابو جعفر کا انتخاب میں نے اس لئے کیا کہ وہ اپنی کمسنی کے ساتھ تمام صاحبان علم و فضل سے ممتاز، اور غیر معمولی اور حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ افسوس ہے تم پر! میں اس جوان کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، وہ اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے  جو علم و دانش اور الہام خدا سے پاتے ہیں، ان کے اجداد ہمیشہ علم دین اور ادب میں لوگوں سے بے نیاز رہے ۔(12)

کمسن امام


      حضرت امام تقی (ع)کی کمسنی خود آپ (ع) کے لئے اور عالم تشیع کے لئے پیچیدہ مسئلہ تھا، یہاں تک کہ آپ(ع) کے قریبی بھی تشویش میں مبتلا تھے؛  لیکن اگر حضرت امام جواد(ع) کی ولادت کے واقعہ، سوانح حیات اور امامت پر غور کریں تو بخوبی معلوم ہوگا کہ دشمن اسلام کے رخ پر زور کا طمانچہ اور عالم تشیع کے لئے باعث افتخار یہی آپ (ع) کی کمسنی کا موضوع ہے۔

        حضرت امام تقی (ع)نے شیعوں کے ائمہ(ع) کی سیاسی، عرفانی اور علمی قدرت کا مظاہرہ کیا اور یہ تمام چیزیں آپ (ع) کی اسی کمسنی کے دور میں واقع ہوئیں۔ آپ (ع)نے ان دشمنوں کے سامنے بہترین رد عمل کے ذریعہ، اور شیعوں  کی صحیح رہنمائی کے ساتھ عباسی فتنوں کے شعلوں کوبھی خاموش کیا اور امام باقر اور صادق علیہما السلام کے ذریعہ جس اسلام کی  ترویج ہوئی تھی، جاری رکھنے میں بھی کامیاب رہے، نیز عالم اسلام اور تشیع کو امام آخر الزماں اور ان کی غیبت کے دور کے لئے تیاری جیسی عظیم ذمہ داری کو بھی پایہ تکمیل تک پہونچایا؛ لہذا زیارت میں یہ کہنا بجا ہوگا: ’’ بابی انتم و امی لقد عبدتم الله مخلصین و جاهدتهم فی الله حق جهاده حتی اتاکم الیقین فلعن الله اعدائکم من الجن و الانس اجمعین‘
      میرے ماں باپ فدا ہوجائیں، بالیقیں آپ نے پورے خلوص سے  خدا کی عبادت کی اور اپنی پوری توانائی کے ساتھ خدا کی راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ بارگاہ حق میں پہونچ گئے (شہادت پاگئے) خدا کی لعنت ہو جن و انس میں سے آپ کے تمام دشمنوں پر۔

حوالے


(1)دلائل الإمامة (ط - الحديثة)، ص368؛ إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص323

(2)الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏1، ص492۔

(3) مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص805؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏50، ص14

(4)تاج المواليد، ص101، الفصل الثاني۔

(5)مستدرک عوالم العلوم ، ج23، ص20

(6)مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج‏4، ص379۔

(7) الکافی، ج1،ص320۔

(8)بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج0‏5، ص 15۔

(9) حیاہ الامام محمد الجواد علیہ السلام ، ص22

(10)الکافی، ج1، ص315

(11) الکافی، ج1، ص322

(12) الارشاد، ج2، ص282